اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی وہ اصل اور بنیادی مسئلہ ہے جس پر انسان کی بقاء اور وجود کا دارومدار ہے۔ ہر نبی نے آغاز رسالت میں اسی اہم مسئلہ کو اپنی دعوت کا محورومرکز بنایا اور کہا ’’ لوگو! گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبعود نہیں‘‘۔ پھر اسی دعوت پر اپنی تمام قوت صرف کر دی کہ انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار سے متعارف کرایا جائے اور انہیں صرف اسی کی بندگی کی راہ دکھلائی جائے۔
یہی تو سب سے بڑا قضیہ ہے جس کے حل پر انسانی فلاح کا
دارومدار ہے۔ ہر نبی اور رسول ﷺ نے زندگی بھر یہی صدا لگائی، کیونکہ یہ بات اتنی اہم ہے کہ پوری انسانی زندگی کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ لوگوں کو ان کے رب کی معرفت کا درس دیا جائے اور ہر چوکھٹ سے ہٹاکر انہیں اللہ وحدہ لا شریک کے آگے جھکایا جائے۔
دارومدار ہے۔ ہر نبی اور رسول ﷺ نے زندگی بھر یہی صدا لگائی، کیونکہ یہ بات اتنی اہم ہے کہ پوری انسانی زندگی کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ لوگوں کو ان کے رب کی معرفت کا درس دیا جائے اور ہر چوکھٹ سے ہٹاکر انہیں اللہ وحدہ لا شریک کے آگے جھکایا جائے۔
انبیاء نے بغیر کسی تمہید کے قوم کو توحید کی دعوت دی ،کیونکہ جب لاالہٰ الااللہ کا عقیدہ دل کی گہرایوں میں گھر کر جائے تو اس کے ساتھ ہی وہ پورا طرز زندگی رو پذیر ہو جاتا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر ہے۔ آقاﷺ نے بھی لوگوں کو یہی دعوت دی:
’’اے لوگو! بس اپنے رب کی بندگی کرو‘‘۔ (البقرہ : ۱۲)
حالانکہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی بہت سے اخلاقی ، تمدنی، معاشرتی اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ خود عرب قوم جہالت، اخلاقی پستی، افلاس، طوائف الملوکی اور خانہ جنگی میں مبتلا تھی۔ رومی اور ایرانی ایمپئریلزم موجود تھا، طبقاتی امتیازات بھی تھے۔ مگر نبیﷺ نے اس وقت کسی ایک مسئلہ کی طرف بھی توجہ نہ کی۔ اگر آپﷺ چاہتے تو آسانی سے عرب قبائل کو جمع کر کے ایرانی اور رومی ایمپئریلزم کا مقابلہ کرتے اور عرب سرزمین سے ان لوگوں کو باہر نکال دیتے۔ اس طرح عرب اپنی قومیت کے پلیٹ فارم پر جمع ہو کر آپﷺ کی قیادت تسلیم کر لیتے پھر آپﷺ انہیں توحید کی دعوت دیتے۔۔۔۔ اس طرح قومیت (Nationalism) کی آسان راہ کے ذریعے عرب اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جاتے، مگر اللہ نے آپﷺ کو اس راہ پر نہیں ڈالا اور آپﷺ کو لا الہٰ الااللہ کی صدا بلند کرنے کا حکم دیا اور مخالفت پر صبر کرنے کی تلقین کی۔ اللہ خوب جانتا تھا کہ قومیت کی راہ سے رومی اور ایرانی طاغوت سے نجات تو مل جاتی، مگر اللہ کی زمین اسلامی قومیت کی بجائے عربی قومیت کے حوالے ہو جاتی اور لا الہٰ الا اللہ کا جھنڈا بلند نہ ہوتا۔
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگزر
رسول اللہﷺ کے عہد میں سرمایہ دار یہودی کاروبار سے عوام کا خون چوس رہے تھے۔ عوام پستی کی گہرائیوں میں گر چکی تھی۔ اگر نبی رحمتﷺ چاہتے تو عوام کی قوت سے سرمایہ داروں کی قوت کو خاک میں ملا دیتے، پھر ان عوامی انقلابیوں سے اللہ کی توحید کا اقرار کرا لیتے۔ مگر آپﷺ نے ایسا نہ کیا کیونکہ اصلاح اور فلاح کے لئے یہ طریقہ کار غلط ہے۔ اس سے لوگوں کے دل لالچ اور حسد سے بھر جاتے اور اللہ خوفی کی بنیاد پر اسلامی معاشرہ قائم نہ ہو پاتا۔
بیاں میں نقطۂ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کیا کہیے!
آپﷺکی بعثت کے وقت اہل عرب کی اخلاقی حالت ابتر تھی۔ شراب نوشی، جوئے بازی اور جنسی بے راہ روی عام تھی۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ آپﷺ چاہتے تو دعوت کا آغاز اخلاقی اصلاح سے کرتے،تزکیہ نفس کا پروگرام بناتے۔ تحریک اٹھ کھڑی ہوتی، جمہور کی صالح جماعت تیار ہوتی جن کے اخلاق سنور گئے ہوتے، پھر اس جماعت کو عقیدۂ توحید کی دعوت دیتے اور یہ قبول کر لیتی۔ مگر جس اخلاق کی پشت پر عقیدہ نہ ہو، اللہ اور آخرت پر ایمان نہ ہو وہ کتنے دن چل سکتا تھا؟
میں نے اے میرِ سپہ تیری سپہ دیکھی ہے
قل ھواللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام!
لہذٰا صرف لا الہٰ الا اللہ کا جھنڈا بلند کیا گیا، دوسرا کوئی جھنڈا نہ تھا۔لوگوں نے اپنے رب کو پہچان لیا، زمین طواغیتِ روم و فارس سے پاک ہو گئی اور اقتدار بھی عربوں کا نہیں اللہ کا قائم ہوا۔ زمین ہر طاغوت سے پاک ہو گئی اور لوگوں کا تزکیہ نفس بھی ہوا۔ان کے پیش نظر رب کی رضا اور ثواب آخرت کے سوا کچھ نہ رہا۔ انسانیت اخلاق کی بلند چوٹی تک جا پہنچی۔ شراب نوشی، سود، جوئے اور جاہلیت کی تمام رسوم و عادات کا قلع قمع ہو گیا۔ قرآن کی چند آیات اور نبی رحمت ﷺ کے مختصر کلمات سے ایسا ہونا ممکن ہوا۔
سیرت النبیﷺ کے مطالعہ سے ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دعوت کا سب سے پہلا نقطہ یہ ہے کہ عقیدۂ توحید کو اپنے دل میں اُتارا جائے۔ یہ دعوت چاہے پہلے سے مسلمان ہونے کے دعویداروں کے اندر ہو یا کفار کے اندر، اسلام کا پہلا تقاضا لاالہٰ الا اللہ ہے۔ پہلی دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ کی بندگی کرو اور اسکے سوا کسی کو الہٰ نہ مانو کیونکہ اخلاقی، تمدنی خرابیوں کی اصل وجہ یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو خود مختار اور غیر ذمہ دار سمجھے یا اللہ کے سوا کسی اور کو الہٰ مان کر یہ عقیدہ رکھے کہ وہ رب العالمین کی بجائے اسکی فریاد رسی اور مشکل کشائی کر سکتا ہے بلکہ اسے اللہ کے عذاب سے بھی بچا سکتا ہے۔ لہذٰا اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ انسان کی خود مختاری یا غیر اللہ کی الوہیت کی بنیاد پر قائم پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے ،چاہے وہ غیر اسلامی سیاسی نظام ہو، معاشی نظام ہو، نظام حکومت ہو یا کوئی اور نظام ہو اور اسکی جگہ لاالہٰ الا اللہ کی بنیاد پر ایک نیا (سیاسی، معاشی، سماجی یا کوئی بھی) نظام قائم کیا جائے۔
جو لوگ قول سے بھی، عمل سے بھی تسلیم کریں کہ حاکم اور الہ صرف اللہ ہے تو انسانوں کے ایسے گروہ کو قرآن کی زبان میں حزب اللہ کہا جاتا ہے۔ایسے لوگوں کو ’’مسلم و مومن‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ اللہ کو الہٰ واحد تسلیم کر لینے کے بعد زندگی کے تمام تر انفرادی، اجتماعی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، سماجی اختیارات اپنے مالک کے حوالے کر دیتے ہیں۔ جیسے مالک کہتا ہے ویسے ہی وہ اپنے مالک کے احکامات کے مطابق اپنا نظام چلاتے ہیں۔ اور اللہ کے نبیﷺ کے بتائے ہو راستے پر یوں جم جاتے ہیں ۔
جو ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن!
اپنی قوم کے وقتی مسائل انہیں پریشان نہیں کرتے بلکہ ان کے سامنے بس ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو اور دوسرے انسانوں کو غیر اللہ کی بندگی سے کیسے نجات دلائیں تاکہ اللہ کی عبادت کا حق ادا ہو سکے۔ جس خدا کے آگے مسجد میں سجدہ کیا جاتا ہے، سیاسی نظام بھی اس کے کہے کے مطابق چلایا جاتا ہے، معیشت کی عمارت بھی اس کے دیے گئے اصولوں پر استوار کی جاتی ہے اور گھر بار بھی اس کی مرضی کے مطابق چلایا جاتا ہے۔
اللہ کو الہٰ واحد مان لینے کے بعد جاہل لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ کے خلاف جمع ہو گئے مگر جنہوں نے دین حق قبول کیا تھا وہ ہر آزمائش میں اللہ کے فضل سے پورے اُترے۔ بعض کا گھر بار چھن گیا، دوست رشتہ دار چھوٹے، مگر انہوں نے اللہ کی خاطر سب کچھ برداشت کیا تاکہ اس نقصان کے بدلے جو صرف ایک اللہ کی عبادت کی وجہ سے انہیں پہنچا ان سے اللہ راضی ہو جائے اور انہیں جنت میں جگہ دے دے۔ یہاں یہ نقطہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اگر نبی رحمت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ لوگوں کو صرف نماز روزے کی دعوت دیتے تو لوگ کبھی انکو اتنی سخت اذیتیں نہ دیتے۔ بے شک وہ لوگ ایک نئے دین (نظام) کی داغ بیل ڈالنے اُٹھے تھے تاکہ پورے کا پورا نظام طاغوت کی حکمرانی کو ٹھکرا کر صرف اور صرف اللہ رب العالمین کے سامنے سر بسر تسلیم خم کر دے اور ہر نظام اللہ کی حکمرانی کے تابع ہو کر چلے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ نے اس جاہلی معاشرے کے اندر اپنے اعتقادات اور تصورات کے لحاظ سے، مراسم عبادت کے لحاظ سے، قانون و شریعت کے لحاظ سے، غیر اللہ کی بندگی سے برات کا اعلان کیا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ وہ لا الہٰ الا اللہ کی عملی تفسیر بن گئے اور اس طرح اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔ آج بھی ’’حزب اللہ‘‘ کی نشونما کا یہی ایک طریقہ ہے۔
اللہ کی اس جماعت نے صرف ایک اللہ کی عبادت کا رنگ قائم کرنے کے لئے محض تبلیغ اور اپیل سے ہی کام نہیں لیابلکہ جب مالک نے انہیں قوت عطاء کی تو انسانوں کی جھوٹی ربوبیت اور الوہیت کے خاتمہ کے لئے انہوں نے تلوار بھی اٹھائی۔ جو لوگ اللہ کی مخلوق کی گردنوں پر سوار تھے اور انہوں نے اللہ کی حاکمیت پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا انہیں عملی طاقت ’’جہادباالسیف‘‘ کے ذریعے الگ کیا گیا کیونکہ یہ غاصب اللہ کی شریعت سے بے نیاز ہو کر لوگوں پر اپنی مرضیاں چلاتے تھے اور اسلام کی دعوت لوگوں کے کانوں تک پہنچنے نہیں دیتے تھے۔ یہی وہ سیدھا راستہ ہے جس پر چل کر خلافت اسلامیہ قائم ہوئی۔
تا خلافت کی بِنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
آج بھی اسلامی ریاست اس طرح سے قائم ہوگی۔ یاد رکھیں کہ اسلامی انقلاب اس طرح نہیں آئے گا کہ ہم اپنی اسمبلیوں میں مفتیانِ کرام کو لا کر بٹھا دیں بلکہ اس پورے سسٹم کو ہی تبدیل کرنا ہوگا۔ اسی باطل نظام کی نحوست ہے کہ جو علماء حق اس کے خلاف اٹھے وہ خود اس نظام میں شمولیت اختیار کر بیٹھے۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے لگے، مگر آج تک نہ تو اسلامی نظام قائم ہو سکا اور نہ یہ قوم اللہ کی شریعت کے تابع ہو سکی۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تصور پر پوری عمارت قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس بات پر مکمل ایمان لایا جائے کہ ہم بحیثیت مجموعی اور علیحدہ علیحدہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اسکے علم سے کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں ہے اور مر کر بھی ہم اس کی گرفت سے نہیں چھوٹ سکتے۔ لہذٰا ہماری زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ اس نظریہ کی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نظام قائم ہوگا، جس سے وہ سائنسدان اور ماہر فلکیات پیدا ہونگے جو اسلامی نظریہ حیات پر ایمان رکھتے ہونگے۔ ایسے ماہرین مالیات و معاشیات اور ماہرین قانون و سیاست پیدا ہونگے جو نظر و فکر کے اعتبار سے مسلم ہونگے۔ ایسی لیڈر شپ پیدا ہوگی جو ان اسلامی اصولوں سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہو گی جن کا بول بالا کرنے کے لئے اسلام اُٹھا ہے۔ چاہے اسکے لئے سب مسلمانوں کو گھر بار، اولاد اور جانوں کو قربان کرنا پڑے۔ ایسی قیادت اسلامی اصولوں کو نظر اندازکر کے کسی معاملہ میں بھی قوم کا فائدہ تلاش نہ کرے گی۔ قوم کی دنیوی فلاح کی خاطر وہ اسکی اخروی زندگی کو تباہ نہیں کرے گی۔ بلکہ خوف الٰہی کا رنگ ان پر غالب ہو گا۔
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے، جام رہے!
No comments:
Post a Comment