Pages

Subscribe:

Labels

Wednesday 11 April 2012

ابو جہل تا اسفندیار

ابو جہل تا اسفندیار
ابن علی

بہت سارے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے جماعت نہم دہم کے کورس سے اسلامی آیات کیوں حذف کیے؟ جواب بہت سادہ سا ہے کہ ہمیں اور اسامہ بن لادن، ملا عمر اور بیت اللہ محسود جیسے دہشت گرد نہیں پیدا کرنے بلکہ انجئنیرز اور ڈاکٹرز پیدا کرنے ہیں۔
حوالا کے لئے دیکھیں: http://tinyurl.com/7nyd833

"محبِ وطن" اسفندیار کی اردو اپنے اعلیٰ اسلوب سے عیاں ہے۔ عبارت کے آخر میں دیا گیا لنک کلِک کیجئے، یہ اسفندیار کے اپنے فیس بک پیج سے لیا گیا ہے۔ اسفندیار ولی کے الفاظِ زریں! اسلام کے شیروں کی سرزمین پر نحوست کا نشان! عزت دار پختونوں کے عظیم نام پر ایک بدنما داغ! "جماعت نہم دہم کے کورس سے اسلامی آیات کو حذف کرنے" کا برملا اعتراف ہی نہیں ہورہا، دادطلب نگاہوں سے میرے اور آپ کی طرف دیکھا بھی جارہا ہے۔ بھلا میں اور آپ اس پر داد دینے میں لیٹ کیوں ہوگئے؟ تف ہے ہم پر! نصاب سے آیاتِ قرآن کو ہی تو خارج کیا گیا ہے، اس پر

Thursday 8 March 2012

اسلامی تاریخ میں سائنسی کامیابیوں پر ایک نظر

اسلامی تاریخ میں سائنسی کامیابیوں پر ایک نظر
قمرالزمان مصطفوی
اسلامی ریاست کے مسلم اور غیر مسلم لوگوں کے سائنس کے میدان میں کارناموں کو نمایاں کرنے کا مقصد سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کی روشن خدمات کو سراہنا ہے۔ اگرچہ ابتداء میں مسلمانوں کا زیادہ تر سائنسی علم بھارتیوں، ایرانیوں، چینیوں اور یونانیوں کی طرف سے آیا تو انہوں نے تیزی سے نہ صرف اس علم کو وسعت دی بلکہ نئے شعبہ جات بھی بنا ئے۔اسلام سے پہلے عرب تاریخ اور جغرافیہ کا ابتدائی علم رکھتے تھے لیکن ان کی تاریخ مقامی قبیلوں اور چند علاقوں کے تذکروں تک محدود تھی۔ اسلام کے ابتدائی دنوں

Monday 27 February 2012

[Lahore High Court] 11 Years Old Muslim Girl AMNA Handed Over To Non-Muslim Mother From France Against The Will of AMNA

پاکستانی لڑکی کے بدلے فرانس نے دس روبوٹس فراہم کر دئیے
                        LAST MODIFIED FEBRUARY 21, 2012 10:58 by ahwaal.com

Sunday 26 February 2012

ِIslamabad Universities - Students Are The Target of Sexual Voilence

اسلام آباد یونیورسٹیز- پروفیسرز طالبات کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں
          LAST MODIFIED FEBRUARY 26, 2012 09:29 by ahwaal.com

Saturday 18 February 2012

Friday 17 February 2012

Thursday 16 February 2012

پیر پاور یا’’ہارس پاور‘‘ ؟

پیر پاور یا’’ہارس پاور‘‘ ؟
قمرالزمان مصطفوی

آپ یقین کریں کہ طاقت کے بغیر نہ کسی قوم کی عزت ہے اور نہ کسی انسان کی۔ اس عبارت کے حوالے سے یہ سوال ہے کہ طاقت حاصل کسیے ہوگی؟ صرف کونے کھدروں میں بیٹھ کر تسبیحاں گھمانے سے یا لوہے کو اسلحہ بنانے سے؟ اللہ تعالیٰ سورۃ الحدید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ ہم نے لوہا اتارا جس میں (اسلحہ جنگ کے لحاظ سے) خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔ جدیدفلکیات محققین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ہماری زمین میں پایا جانے والا لوہا بیرونی خلاء کے عظیم ستاروں سے آیا ہے۔ کائنات میں

Tuesday 14 February 2012

Monday 13 February 2012

اسلام اور سائنس

اسلام اور سائنس
قمرالزمان مصطفوی


اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے جو خالق حقیقی کی طرف سے آیا ہے۔ اللہ ایک ہے جس نے انسان کو اور اس ساری کائنات کو پیدا کیا اور انسان کو طبعی قوانین کے ماتحت کر دیا جو اس کائنات پر لاگو کئے گئے۔ قرآن جو کہ محمد عربیﷺ پر نازل ہوا انسان کو اس طبعی دنیا کے متعلق سوچنے اور اس کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ وہ خالق حقیقی کی معرفت حاصل کرے اور اس کی کبریائی بیان کرے۔
یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عریانی
قرآن کی قریبا ایک ہزار آیات اس طبعی دنیا اور اس میں وقوع پذیر ہونے والے کئی مظاہر کی وضاحت کرتی ہیں جو کہ اس بات کی قطعی قطعی دلیل ہے کہ یہ وحی خالق کی طرف سے مخلوق کی طرف آئی ہے۔ جس میں کئی وضاحتیں تو نزول کے وقت عوام الناس نہ سمجھ سکے کیونکہ اس وقت انسان کے پاس وہ آلات میسر نہیں تھے جو آج جدید دور میں موجود ہیں۔ جیسا کہ مائکروسکوپ ، ایکس ریز اور دوسرے جدید آلات وغیرہ۔ پچھلے سو سالوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے

Sunday 12 February 2012

سائنسی تاریخ میں مسلمانوں کا نام کیسے غائب ہوا؟

سائنسی تاریخ میں مسلمانوں کا نام کیسے غائب ہوا؟
قمرالزمان مصطفوی

پچھلے تین سو سالوں میں یورپ نے عالمی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بلا شبہ بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کارنامے میں حصہ لینے والا ہر شخص اپنے نمایاں کردار کے عوض خراج تحسین کا مستحق ہے۔ یورپ میں سائنس کو دیے جانے والے جوش اور اخلاص کی مثال مذکورہ صدیوں میں تو واقعی نہیں ملتی۔ اور دنیا اس عظیم کردار کی احسان مند بھی ہے۔مکمل تاریخ میں یورپ کے بہت سے سائنس دانوں کی زندگیوں اور کارناموں پر تحقیق ہوئی اور انہیں باقاعدہ دستاویزی شکل دی گئی۔ سائنس کے میدان میں ہلا کر رکھ دینے والے اس عظیم کردار کی واضح جھلک سائنسی قوانین کے ناموں، ایجادات اور جدید دریافتوں میں نظر آتی ہے۔ چاچانیوٹن کے قوانین عالمی سطح پر مانے جاتے ہیں۔ وولٹ اور واٹ کے الفاظ پر تحقیق کی جائے تو ان کے پیچھے سرآئزک نیوٹن،

Saturday 11 February 2012

Islamic Republic of Pakistan-No.1 in Porn Search

Islamic Republic of Pakistan-No.1 in Porn Search

Iraq war the biggest American disaster?

Iraq war the biggest American disaster?

The 700 Club - June 1, 2011 - CBN.com

The 700 Club - June 1, 2011 - CBN.com

Legitimate Demands [2] Barrak's Dilemma

Legitimate Demands [2] Barrak's Dilemma

Engineer Ahmed Yahya Godahn (Media Advisor of Al Qaeda) About America and Israel

Engineer Ahmed Yahya Godahn (Media Advisor of Al Qaeda) About America and Israel

Bush admits Iraq was 'a terrible mistake'

Bush admits Iraq was 'a terrible mistake'

BARACK OBAMA SPEECH OFFICIAL BREAKING NEWS OSAMA BIN LADEN DEAD

BARACK OBAMA SPEECH OFFICIAL BREAKING NEWS OSAMA BIN LADEN DEAD

Pakistan president House kitchen renovation

Pakistan president House kitchen renovation

Amriki ilzamat Aur Haqqani Network

Amriki ilzamat Aur Haqqani Network

Pakistan & Islam - Motivation behind Pakistan movement

Pakistan & Islam - Motivation behind Pakistan movement

Whats wrong with Muslims - Dr Israr Ahmad - Meray Mutabiq 24Oct09

Whats wrong with Muslims - Dr Israr Ahmad - Meray Mutabiq 24Oct09

Girls in London on Student Visa and Problem

Girls in London on Student Visa and Problem

Orya Maqbool Jan & Senator Mushahid Ullah say Khilafah is the perfect system

Orya Maqbool Jan & Senator Mushahid Ullah say Khilafah is the perfect system

Burqa Ban Goes Into Effect In France

Burqa Ban Goes Into Effect In France

Thursday 9 February 2012

THE GOLD DINAR AND SILVER DIRHAM: ISLAM AND THE FUTURE OF MONEY by Sheikh Imran N Hussein

THE GOLD DINAR AND SILVER DIRHAM: ISLAM AND THE FUTURE OF MONEY by Sheikh Imran N Hussein

Published by Masjid Jāmi’ah,
City of San Fernando.
76 Mucurapo Street,
San Fernando.
Trinidad and Tobago.
Imrān N. Hosein 2007
Click on the image to read more>>

Wednesday 8 February 2012

14فروری، یوم غیرت

14فروری، یوم غیرت
قمرالزمان مصطفوی

یہ کچھ دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند
غیرت نہ تجھ میں ہوگی نہ زن اوٹ چاہے گی
اس کشمکش میں "معتدل" مسلمان اور یہود ایک طرف ہیں اور "بنیاد پرست" مسلمان دوسری طرف! (رچرڈ نکسن)
یہ قول سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس میں کس کشمکش کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے؟ یہ ہے کفر اور اسلام کی باہمی دشمنی جو انقلاب اسلام کے روز اول سے لیکر اب تک جاری ہے۔ یہ کفر اور اسلام کے درمیان وہ کشمکش ہے جس میں عمربن الخطاب کی شہادت ہوئی، عثمان غنی کو شہید کیا گیا، علی شیر اللہ کو خنجر مارا گیا،رضوان اللہ علیہ، اور اس میں کربلا جیسے میدان بھی سجے۔وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے انسان نے ترقی کی، جنگی ہتھیار بھی جدید ہوتے گئے۔ کسی دور میں صرف تلواروں پر اکتفا کیا جاتا تھا، بعد میں کلاشن کوف بھی آگئی۔ لیکن اب جنگ صرف میدانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ نظریات کے محاذ پر بھی یہ جنگ زور و شور سے جاری ہے۔

Monday 6 February 2012

Islam & Banking - Section 2

Islam & Banking - Section 2

Islam & Banking - Section 1

Islam & Banking - Section 1

PLITICO SOCIO ECONOMIC SYSTEM OF ISLAM by Dr. Israr Ahmed

PLITICO SOCIO ECONOMIC SYSTEM OF ISLAM by Dr. Israr Ahmed

Economic System of Islam by Dr. Israr Ahmed

Economic System of Islam by Dr. Israr Ahmed

Shaadi Ki Takribat Mein Islah by Dr. Israr Ahmed

Shaadi Ki Takribat Mein Islah by Dr. Israr Ahmed

Modern Islamic State - Political System by Dr. Israr Ahmed

Modern Islamic State - Political System by Dr. Israr Ahmed

Quran & Modern Science by Dr. Zakir Naik

Quran & Modern Science by Dr. Zakir Naik

Quran & Modren Science - The Truth Of Life Of This World - By Harun Yahya

Quran & Modren Science - The Truth Of Life Of This World - By Harun Yahya

Imam Mehdi and the Return of Caliphate by Sheikh Imran Hossain

Imam Mehdi and the Return of Caliphate by Sheikh Imran Hossain

Khutbat e Khilafat by Dr. Israr Ahmed

Khutbat e Khilafat by Dr. Israr Ahmed

Sunday 5 February 2012

آج کا مسلمان اور دو خداؤں کی پوجا

آج کا مسلمان اور دو خداؤں کی پوجا
قمرالزمان مصطفوی

روزانہ کروڑوں مسلمان امت مسلمہ کے لئے ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتے ہیں اور رمضان المبارک میں خاص طور پر اسی مقصد کے لئے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ ہر سال حج کے موقع پر بھی لاکھوں مسلمان امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ، کفر پر اسلام کے غلبے، کشمیر، فلسطین، کوسووا اور مسلمانوں کی دوسری سر زمینوں کی کفر کے غلبے سے آزادی اور امت مسلمہ کی عظمت ماضی کے مطابق سر بلندی کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام اخلاص سے بھرپور نمازوں اور دعاؤں کے باوجود امت مسلمہ کی حالت دن بدن بد سے بدترین کی طرف

وطنیت امت مسلمہ کی سب سے بڑی بیماری

وطنیت امت مسلمہ کی سب سے بڑی بیماری
قمرالزمان مصطفوی


وطن اس وقت طاغوت کے مفہوم میں داخل ہو جاتا ہے اور اللہ کے علاوہ معبود بن جاتا ہے جب وطن اور اسکی جغرافیائی وحدت کی طرف نسبت کی وجہ سے الولاء والبراء کو قائم کیا جائے۔ اور اسی کی بنیاد پر تمام حقوق اور واجبات کو تقسیم کیا جائے۔ مثال کے طور پر اسکی ایک صورت یہ ہے کہ جو کوئی اس وطن کی طرف منسوب ہے اور اس کی حدود میں رہنے والا ہے اگرچہ وہ سب سے بڑا کافر کیوں نہ ہو اسے تمام حقوق اور سہولیات ملیں گی۔ اور جو کوئی سکونت اور شہریت کے اعتبار سے اس وطن کا باشندہ نہ ہو اسے وہ

نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو!

نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو!
قمرالزمان مصطفوی


اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: ’’ اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے، اور بدی سے روکے۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (آل عمران : 104)
دنیا کی قومیں اپنے لئے زندہ رہتی ہیں، اپنے لئے جدو جہد کرتی ہیں۔ اپنی ترقی، اپنی عظمت، اپنی سر بلندی اور اپنے لئے قوت و سطوت حاصل کرنے کے لئے کو شاں ہوتی ہیں۔ لیکن اے مسلمانوں تمہیں دنیا والوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہے۔تمہیں دنیا والوں

لا الٰہ الا اللہ کے تقاضے

لا الٰہ الا اللہ کے تقاضے
قمرالزمان مصطفوی
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہتما کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی باقی بتانِ آزری
لا الٰہ الا اللہ وہ کلمہ توحید ہے جو انسان کو غیر اللہ کی بندگی سے نکال کر اکیلے اللہ تعالیٰ کو معبودِ برحق تسلیم کرواتا ہے۔ یہ دین اسلام کا پہلا سبق ہے۔ اس کے اقرار کا مطلب یہ ہے کہ اب انسان کی ساری زندگی صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی (مکمل اطاعت) میں گزرے گی۔ اسکی نماز، اسکا روزہ، اسکے تمام معاملات، ہر فعل یہ گواہی دے گا کہ الٰہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اطاعت و بندگی صرف اسی عرشِ عظیم کے مالک کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ کوئی حاکم اور الٰہ نہیں ہے، اسکے دین کے خلاف ہر حکم ہر قانون پاؤں تلے روند دیے

اسلامی تاریخ میں سائنسی ترقی کے عناصر

اسلامی تاریخ میں سائنسی ترقی کے عناصر
قمرالزمان مصطفوی

یہ نظریہ کہ مذہب سائنسی ترقی کے خلاف ہے، اس نظریہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلم لوگوں کو سائنس کے میدان میں زیادہ تر کامیابیاں اسلامی خلافت کے دوران حاصل ہوئیں، نہ کہ اتفاقی اور حادثاتی طور پر ایسا ہونا ممکن ہوا اور نہ کہ جب اسلام عملی زندگیوں سے باہر کر دیا گیا۔
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِآدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی

اس جذبے کا محرک کیا تھا ؟کہ لوگ سائنس کا علم حاصل کرنا چاہتے اور اس میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے جستجو کرتے؟ کیا چیز تھی جو اسلامی ریاست کے شہریوں کو سائنس کے مختلیف شعبہ جات کی طرف کھینچ کر لائی؟ کیا وہ لوگ بہت دولت مند اور فارغ تھے جن کے پاس پڑھنے اور سوچ بچار کرنے کے لئے وقت ہی وقت تھا؟ ی

انبیاء کا مشن اور آج کا انقلاب

انبیاء کا مشن اور آج کا انقلاب
قمرالزمان


اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی وہ اصل اور بنیادی مسئلہ ہے جس پر انسان کی بقاء اور وجود کا دارومدار ہے۔ ہر نبی نے آغاز رسالت میں اسی اہم مسئلہ کو اپنی دعوت کا محورومرکز بنایا اور کہا ’’ لوگو! گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبعود نہیں‘‘۔ پھر اسی دعوت پر اپنی تمام قوت صرف کر دی کہ انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار سے متعارف کرایا جائے اور انہیں صرف اسی کی بندگی کی راہ دکھلائی جائے۔
یہی تو سب سے بڑا قضیہ ہے جس کے حل پر انسانی فلاح کا

مغربی سرمایہ دارانہ نظام۔۔۔ آخری دموں پر؟

مغربی سرمایہ دارانہ نظام۔۔۔ آخری دموں پر؟
مریم عزیز
فری مارکیٹ کے پر کشش نام سے یہ نظام بظاہر لوگوں میں مقبولیت پا گیا مگراس کی حقیقت دراصل یہ تھی کہ کمیونزم کی طرح یہ نظام بھی انسانی معاشرے کی تمام بنیادوں کو نظر انداز کرکے معیشت کے تابع کردیتا ہے۔
قارئین کرام، آج کل مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق خبروں کے بہت چرچے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ تنگ آئے مغرب کے عوام،جواب تک اپنے معاشی، سیاسی اور سماجی نظام سے مطمئن چلے آرہے تھے، بالآخراس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے

جمہوریت کی شرعی حیثیت

جمہوریت کی شرعی حیثیت
قمرالزمان

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی


ہرشخص کی یہ آوازہے کہ’’ بس جمہوریت ‘‘اور’’ بس جمہوریت‘‘ ہونی چاہیے۔ لیکن جمہوریت کی حقیقت کیا ہے یہ کوئی نہیں جاننا چاہتا ۔ یہ آئی کہاں سے اور اس کے اثرات کیا نکلیں گے اس پر غور کرنے کے لئے کسی کے پاس فرصت نہیں ہے۔جمہوری نظام اسلامی خلافت کے نظام کے جیسا ہے یا شریعت کی ضد ہے اس پر کبھی ہم نے سوچنا ہی نہیں چاہا۔ کیونکہ اسلام تو ہماری بنیادی ترجیحات میں شاید شامل ہی نہیں رہا۔کیا اسلام صرف ایک مذہب ہے؟ اور بس نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ادا کر دینے کا نام ہے؟ یا اسلام اس زمین پر پایا جانے والا واحد مذہب ہے جو پورا دین ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں انسانیت کو موجودہ دور کے لحاظ سے رہنمائی دیتا ہے؟
:ابراہم لنکن نے جمہوریت کو کچھ اس انداز میں بیان کیا
’’لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے، لوگوں کے لئے‘‘
:اس کو اگر ہم اپنی زبان میں بیان کرنا چاہیں تو یہی تعریف کچھ یوں بن جاتی ہے
’’لوگوں کا ڈنڈا، لوگوں کے ہاتھ سے ، لوگوں پر برسنا‘‘
:اقبال نے بھی جمہوریت کو بہت خوب بیان کیاہے
اس راز کو اِک مرد فرنگی نے کیا فا ش ہر                     چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں                 بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے


مختصر یہ کہ جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو بظاہر انکی مرضی کی قانون سازی کا اختیار دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک نماءندہ انتخابات کے لئے کسی علاقے سے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ وہ ایک بندہ جس نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ان سب لوگوں کی رائے اور نظریہ پارلیمنٹ میں لے جائے گا۔ ادھر ایک بندہ بات کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سب لوگ بات کررہے ہیں کیونکہ ان سب لوگوں نے اس کو ووٹ دیا ہے۔ اب جب بہت سارے پارلیمنٹ میں آگئے تو یہی پورے ملک اور پوری قوم کی رائے لائے۔جب یہ تین سو لوگ بولتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پورا ملک بولتا ہے۔ تو یہ تین سو لوگ ملکی نظام چلانے کے لئے قانون بناتے ہیں۔ پھر اس پر ہر رکن دستخط کرتا ہے۔ 
امت مسلمہ نے خلافتِ راشدہ کے مبارک دور کے بعد تین بڑی خلافتوں؛ خلافتِ امویہ، خلافتِ عباسیہ اور خلافتِ عثمانیہ کا نظارہ کیا۔ خلافت کے اِس شجرِ سایہ دار تلے جہاں ایک طرف یہ امت اپنے دین پر بلا روک ٹوک عامل رہی، وہیں اس کو کفارِ عالم پر غلبہ اور عروج بھی حاصل رہا۔ امت کا دین بھی محفوظ رہا اور اس کی جان، مال اور عزت بھی محفوظ۔اگرچہ بعض مراحل میں خلافت کے اس ادارے میں کمزوریاں بھی دیکھنے کو ملیں، لیکن کمزوریوں کے باوجود بھی فقط اس کا وجود ہی مسلمانوں کے لئے بہت بڑے سہارے کا موجب رہا اور وہ صدیوں تک ایک مرکز پر ایک قیادت تلے متحد رہے۔بیسوں صدی کے آغاز میں جب دشمنان اسلام کی کوششوں سے خلافت عثمانیہ کا سقوط ہواتو پورے عالم اسلام پر غلامی کے بادل چھا گئے۔
دشمنان اسلام کے لئے یہ دور بڑی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ جس نظام خلافت کو وہ صدیوں کی کوششوں کے بعد توڑنے میں کامیاب ہوئے اس کے دوبارہ قیام کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے ایک متبادل کھلونے کی ضرورت تھی جو کہ مسلمانوں کو بہلانے کے لئے ان کے ہاتھ میں دیا جائے اوران کی توجہ خلافت کے دوبارہ قیام کی طرف نہ جاسکے۔بس کچھ ایسا کر دیا جائے کہ مسلمان ساری عمر بس اپنے ہی مسائل میں الجھے رہیں۔ لہذٰا مسلمانوں کے سامنے جمہوریت کو ایک سہانے خواب کی شکل میں پیش کیا گیا۔ اور اس کے مدمقابل آمریت کا بھیانک منظررکھاگیا۔بہرحال وہ اس مقصد میں کامیاب ہوگئے۔اس کے بعد سے آج تک مسلمان کسی پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہو سکے۔ حتیٰ کہ بیت المقدس بھی ہاتھ سے چلی گئی۔لیکن اس امت کی آنکھیں نہیں کھل سکیں۔ظاہر ہے کہ جب مرکز ہی ایک نہ رہا تو سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔
جمہوریت صرف الیکشن لڑنے، ووٹ ڈالنے اور اپنے پسندیدہ حکمران چننے کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ایک اایساکفر نظام ہے جس کے ذریعے اانسانوں کو قانون سازی کا اختیار دیکر انہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’حکم دینا تو صرف اللہ کے لئے ہے‘‘ (سورہ یوسف ۰۴)
’’ اور جو کوئی بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں‘‘۔
(المائدہ ۴۴)
’’ اور جو کوئی بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵۴)
’’ اور جو کوئی بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔ (المائدہ ۷۴)
جبکہ جمہوریت میں پارلیمنٹ کو اس بات کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کی اکثریت کی بنیاد پر جس چیز کو چاہے حلال قرار دے دے اور جسے چاہے حرام ٹھہرا دے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی سر زمین پر دیکھ سکتے ہیں کہ سود، انشورنس، سٹاک مارکیٹ اور اس جیسے بہت سے غیر اسلامی کام اسمبلیوں کے ذریعے جائز کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ اسلام میں قانون بنانے کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔


شریعت میں کثرتِ رائے معیار حق و باطل نہیں
دین اسلام میں انسانوں کی اکثریت کا کسی ایک جانب آجانا حق و باطل کا فیصلہ کرنے کے لئے بنیادی حیثیت نہیں رکھتا۔ اسی لئے اکثریت کو قرآن حکیم نے حد درجہ غیربنیاد قرار دیا ہے اور دین و ملک اور دیانت و سیاست کے تمام ہی دائروں میں اکثریت کی بے وقعتی اور بے اعتباری کھلے الفاظ میں بیان کی ہے۔ قرآن حکیم میں ایک سے زائد جگہوں پہ ارشاد ہے:
’’ اور اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے گو آپ کا کیسا ہی جی چاہتا ہو‘‘۔ (سورہ یوسف ۳۰۱)
’’لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (سورہ ھود ۷۱۱)
’’بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں سمجھتے‘‘۔ (سورہ عنکبوت ۳۶)
’’ اور لیکن اکثرآدمی علم نہیں رکھتے‘‘۔ (سورہ الاعراف ۷۸۱)
’’لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں‘‘۔ (سورہ انعام ۱۱۱)
’’ اور ان میں اکثر آدمی حق کو نہیں جانتے بلکہ اس سے منہ پھیرنے والے ہیں‘‘۔ (سورہ الانبیاء ۴۲)
’’ اور اکثر لوگوں میں ہم نے وفائے عہد نہ دیکھی، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں‘‘۔ 
(سورہ الاعراف ۲۰۱)
’’ اور ان سے پہلے بھی اگلے لوگوں میں اکثر گمراہ ہو چکے ہیں‘‘۔ (سورہ الصافات ۱۷)
’’ ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہو چکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے‘‘۔ (سورہ یٰس ۷)
’’ اور بہت سے ایسے ہیں جن پر عذاب ثابت ہو گیا ہے‘‘۔ (سورہ الحج ۸۱)
’’ بارہا چھوٹی چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی جماعتوں پر خدا کے حکم سے غالب آگئیں‘‘۔ (سورہ البقرہ ۹۴۲)
’’اللہ تعالیٰ نے بے شمار مواقع پر تمہاری مدد کی اور حنین کے دن بھی کی، جبکہ تمہیں تمہاری کثرت نے دھوکے میں ڈال دیا تھا، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی فراخی کے تم پر تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے‘‘۔ (سورہ التوبہ ۵۲)
’’ آپ فرما دیجیے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں، گو تمہیں ناپاک کی کثرت تعجب میں ڈالتی ہو‘‘۔
(سورہ مائدہ ۰۰۱)
’’ اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں، اور وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور اٹکل پچو لڑاتے ہیں‘‘۔ (سورہ انعام ۶۱۱)
پس قرآن نے دنیا کی اکثریت سے ایمان کی نفی کی، عقل کی نفی کی، علم کی نفی کی، محبت حق کی نفی کی، تحقیق کی نفی کی، بیداری اور فہم کی نفی کی، ایفائے عہد کی نفی کی، ہدایت کی نفی کی، ثواب آخرت اور جنتی ہونیکی نفی کی، جہاد میں اکثریت کے گھمنڈ پر فتح و نصرت کی نفی کی، اور قابل استعمال اشیاء میں اکثریت کے معیار پر حلال و طیب ہونیکی نفی کی۔ گویا واضح کر دیا کہ دنیا میں ہر دائرے کی اکثریت معیار حق نہیں ہے۔ کیونکہ امر واقع یہ ہے کہ دنیا کی اکثریت حماقت، جہالت، کراہت حق، اٹکل کی پیروی، غفلت، بد عہدی، ضلالت، عذاب اخروی، جہنم رسیدگی اور شکست خوردگی وغیرہ کا شکار ہے۔ چنانچہ محض عددی اکثریت اسلام کے مطابق کہاں قابل وقعت قرار پاسکتی تھی کہ اسے حقوق کے لئے فیصلہ کن تسلیم کیا جاتا۔


الیکشن یا ووٹنگ کی شرعی حیثیت
جمہوریت پر اسلام کا لیبل لگانے کے لئے جمہوریت کے حامی جلدی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی اسلام میں جو کام مجلس شوریٰ انجام دیتی ہے اور یہی کام جمہوری نظام میں پارلیمنٹ انجام دیتی ہے، لہذا جموریت بھی عین اسلامی طریق پر نظام حکومت ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بنا سوچے سمجھے ہی اپنے ہر کام کو اسلام کا لیبل لگانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں نہ کہ اسلام سے اپنے ہر کام کے متعلق رہنمائی لینا چاہتے ہیں۔ اگر تھوڑی سی عقل کا استعمال کیا جائے توجمہوریت اور اسلامی نظام خلافت میں اس کے علاوہ اور کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی، اور اگر تھوڑا سا عقل کا استعمال اور کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مماثلت بھی سو فیصد نہیں ہے۔ اسلام میں مشورہ لینے کے لئے کچھ شرائط بھی ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہے کہ شراب کے حلال اور حرام ہونے سے متعلق بھی مشورہ کیا جائے گا۔ جب اسلام میں شراب ہے ہی حرام توکثرت رائے اسے حلال قرار نہیں دے سکتی ہے۔ اسی طرح اسلام میں جس چیز کی حرمت واضح کر دی گئی اس کے نافذ العمل ہونے یا نہ ہونے کا معیار کثرت رائے نہیں ہے۔ لہذٰا اس کے لئے ووٹنگ نہیں کی جائے گی۔جہاں تک تعلق ہے الیکشن یا ووٹنگ کے ذریعے نمائندہ منتخب کرنے کا، تو یہ محض ایک اسلوب ہے جس سے کسی شخص کو کسی خاص ذمہ داری کے لئے منتخب کیا جاتا ہے جیسا کہ سفر کے لئے اک نمائندہ یعنی امیر منتخب کرنا، یا مجلس شوری کا نمائندہ منتخب کرنا جس کی شریعت میں اجازت ہے مگر شریعت کی رو سے کثرت رائے صرف ایک صورت میں معتبر ہے، جب مسئلے کے دہ پہلوہوں اور دونوں مباح ہوں۔ ایسے میں کثرت رائے کے ذریعے کسی ایک پہلو کو ترجیح دی جا سکتی ہے، مگر اس کے لئے بھی کچھ اضافی شرائط ہیں مثال کے طور پر یہ کہ:
*یہ اکثریت دیانتدار لوگوں کی ہونی چاہیے، ورنہ خائنوں اور فاسقوں کی اکثریت کے مقابلے میں بلا شبہ ان افراد کی اقلیت قابل ترجیح ہوگی جن کی دیانت و امانت مسلم اور جن کا فہم و ذوقِ سلیم معروف ہو۔
* ایک پہلو کو دوسرے پہلو پر ترجیح دینے سے منصوص احکامات میں خلل نہ پڑے۔
* اکثریت جس پہلو کو ترجیح دے اس پر اتنا زور بھی نہ دیا جائے کہ جانب مخالف قابل ملامت قرار پا جائے۔ یعنی اگر کسی مباح کام کے متعلق ( جس کے کرنے یا نہ کرنے کا شریعت نے اختیار دیا ہے) کثرت رائے سے اس کا کرنا ترجیح پائے تو اس کام کے ترک کو مکروع یا ممنوع نہ ٹھہرایا جائے، اور اسی طرح اگر اس کام کو ترک کرنا راجح قرار پائے اس کام کا کرنا قابل نکیر و ملامت نہ سمجھا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو وہ کام مباح نہیں رہے گا بلکہ اباحت کی حدود سے نکل کر واجب یا حرام کی حدود میں آجائے گا اور کسی کام کو واجب و حرام بنانا اللہ کے سوا کسی کا حق نہیں ہے۔ پس اگر ایسا کیا گیا تو یہ بدعت کہلائے گی جس کی مذمت سے شریعت بھری پڑی ہے۔
 اکثریت بھی عوام کی نہیں بلکہ ان اہل علم و فضل کی معتبر ہے جو ذوقِ تشریع اور حکمت شریعت سے بہرہ ور ہوں، ورنہ عوام الناس کی اکثریت اگر کلیتا بھی کسی مسئلے پر متفق ہو جائے تو اسکی کوئی وقعت نہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اکثریت صرف اسی صورت معتبر ہے جب مسئلہ مباحات میں سے ہو اور اکثریت عوام کی بجائے اہل علم و فضل کی ہو اور وہ اکثریت بھی اپنی حدود میں رہے۔ مثال کے طور پر ایک عمارت کی تعمیر میں کونسا اور کتنا میٹریل استعمال ہو گا اسکا مشورہ سول انجنئیر سے ہو گا نہ کہ نیورو سرجن سے جو کہ بلا شبہ اپنے شعبہ میں مہارت رکھتا ہے۔پس منصوصات یعنی فرائض و واجبات، سنن و مستحبات اور مکروہات و محرمات وغیرہ میں کثرت رائے کا کچھ اعتبار نہیں۔ یوں یہ دائرہ کار بہت ہی تنگ ہو جاتا ہے۔الیکشن اور ووٹنگ بذات خود حرام عمل نہیں لیکن جب اس عمل کو جمہوری نظام کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے تو یہ بھی حرام ہو جاتا ہے۔ یہ جمہوریت کا ایک حصہ ہے نہ کہ پوری جمہوریت۔


پارلیمنٹ
پارلیمنٹ جمہوریت کا مرکزی اور بنیادی ادارہ ہے اور قانون سازی کی ساری قوت اس کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے ممبران کو قانون سازکہا جاتا ہے۔ جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جو دین اور دنیا کی علیحدگی یعنی سیکولرزم کی فکر پر قائم ہے اور اسکی رو سے عوام کے منتخب نمائندوں کی مجلس قانون ساز یا پارلیمنٹ کا وجود لازم ہے جو اس جمہوری نظام حکومت کی روح رواں ہے۔
پارلیمنٹ کے دو کام ہیں:
۱۔ عوام کی نفسانی خواہشات کے مطابق قانون سازی
۲۔ حکومت کی تشکیل
جمہوری نظام میں لوگوں کو اپنی خواہشات کے مطابق حکومت کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ جمہوریت میں اس کا عمل ثبوت یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی نمائندہ پارلیمنٹ اور سینٹ کو اختیار ہے کہ وہ اکثریت کی بنا پر کسی بھی نوعیت کا قانون بنا سکتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’ کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا‘‘۔ (الاحزاب)


اسلام کی رو سے وہ نظام جس پر انسان کو چلنا چاہیئے اسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے وضع فرما دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ پر اس نظام کو شریعت کی صورت میں معبوث فرمایا ہے اور آپﷺ نے اسے انسانوں تک پہنچا دیا ہے۔ اب انسان کے لئے حتمی و لازمی ہے کہ وہ اعمال کی بجا آوری اللہ تعالیٰ کے امرو نہی کے مطابق کرے۔ گویا انسان کو شریعت سازی یا قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں۔ اور یہی وہ بنیادی فرق ہے کہ جس کی وجہ سے جمہوریت جو کہ انسان کا بنایا ہوا نظام ہے اس میں اور اسلامی نظام حکومت میں کوئی مطابقت نہیں۔ پس جمہوریت ہر شکل میں خواہ وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی، کفر نظام ہی ہے، کیونکہ یہ لوگوں کو قانون سازی کا اختیار دیتی ہے اور اس کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ اسی لئے جمہوریت کو اختیار کرنا، اسے تقویت دینا اس میں حصہ لینا حرام ہے۔


Illegal means of earnings


 
Illegal means of earnings:
1 Selling of statues
2 Earning through promotion of shirk like earning of mujawars
3 Interest
4 Selling of alcohol and narcotics
5 Earning through telling lies like telling wrong purchase price
6 Earning through fraud like concealing fault of the product
7 Earning of fortune tellers
8 Prostitution and those promoting and distributing it
9 Earning through palmistry and astrology
10 Earning of musical instruments
11 Earning through issuing wrong fatwas and misguiding people

Stance of Islam on early age marriages?


 
Marriage is basically a religious-cum-social contract between people of opposite genders. The purpose of marriage is to :
1 Over come sexual deviation and corruption
2 Continue human generations
3 Get a life partner for sharing and satisfaction
All these targets can be achieved if marriage is done with the consent of bride and families involved in this religious-cum-social contract.
Some people are keen to know stance of Islam about age of bride and bride groom.There is no restriction in Islam about age of marriage .Any person who has reached the age of puberty is allowed to marry in Islam provided that he/she is mentally and physically mature to fulfil the liabilities of marriage.
Many people have objections on early age marriages and they feel it is against human rights however on the other hand they are full supporters of free sex and are ready to accommodate even gays and lesbians under the banner of freedom, liberty and human rights.
Islam is against every kind of moral corruption and strongly condemns free mixing of genders . It is unlucky that many religious Muslims also become victims of propaganda done by secular and liberal people and start raising voice against early age marriages.
Reliable data shows that a large number of both genders is involved in moral corruption in early teens or even before and a majority of teenagers are involved in unethical activities especially masturbation which is not even taken unethical by many secular circles. This curse of masturbation causes mental distortion and many times leads to frigidity, impotence and acute depression.
All this observation strengthens the Islamic stance that a person male or female should be married as soon as possible if they are able to fulfil their liabilities with or without assistance of their family this can save them from all kinds of moral corruption.Allah swt says:
And marry those among you who are single (i.e. a man who has no wife and the woman who has no husband) and (also marry) the Sâlihûn (pious, fit and capable ones) of your (male) slaves and maid-servants (female slaves). If they be poor, Allâh will enrich them out of His Bounty. And Allâh is All-Sufficent for His creatures' needs, All-Knowing (about the state of the people). (An-Nur 24:32)
This verse indicates that Islam wants that single men/women should be married even if they are not financially stable because character is more important is Islam than carrier.
The first generation of Islam ie many sahabas practiced early age marriages and the result is quiet obvious that society was saved from all kind of moral corruptions.
Some of the prominent sahabias married at early ages are
1 Ummul momineen Ayesha radi Allahu anha
2 Ummul momineen Safiyya bint e Hayy radi Allahu anha
3 Hazrat Fatimah tuz Zahra radi Allahu anhu
It is however not obligatory to marry at early ages and according to surah Noor people can wait till they are financially stable.
Allah swt says:
And let those who find not the financial means for marriage keep themselves chaste, until Allâh enriches them of His Bounty. And such of your slaves as seek a writing (of emancipation), give them such writing, if you know that they are good and trustworthy. And give them something yourselves out of the wealth of Allâh which He has bestowed upon you (An-Nur 24:33)
This verse clearly indicates that there is no compulsion on a person to marry at early age and he/she can wait if they can save them from corruption but no one should criticize the early age marriages because it is one of the major ways to over come moral corruption and one thing should be kept in mind that early age marriage does not mean that a girl is being married without her consent .The consent of bride must be taken because without consent of guardian and bride a marriage is not legal in Islam.

By Engineer Ibtisam Elahi Zaheer www.quran-o-sunnah.com