وطنیت امت مسلمہ کی سب سے بڑی بیماری
وطن اس وقت طاغوت کے مفہوم میں داخل ہو جاتا ہے اور اللہ کے علاوہ معبود بن جاتا ہے جب وطن اور اسکی جغرافیائی وحدت کی طرف نسبت کی وجہ سے الولاء والبراء کو قائم کیا جائے۔ اور اسی کی بنیاد پر تمام حقوق اور واجبات کو تقسیم کیا جائے۔ مثال کے طور پر اسکی ایک صورت یہ ہے کہ جو کوئی اس وطن کی طرف منسوب ہے اور اس کی حدود میں رہنے والا ہے اگرچہ وہ سب سے بڑا کافر کیوں نہ ہو اسے تمام حقوق اور سہولیات ملیں گی۔ اور جو کوئی سکونت اور شہریت کے اعتبار سے اس وطن کا باشندہ نہ ہو اسے وہ
حقوق اور سہولیات کبھی نہیں مل سکتیں جو یہ کافر حاصل کر رہا ہے اگرچہ وہ سب سے زیادہ متقی اور افضل ترین ہی کیوں نہ ہو۔
حقوق اور سہولیات کبھی نہیں مل سکتیں جو یہ کافر حاصل کر رہا ہے اگرچہ وہ سب سے زیادہ متقی اور افضل ترین ہی کیوں نہ ہو۔
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ وہ بیماری ہے جو آج امت مسلمہ کو لاحق ہے جس کی وجہ سے امت مسلمہ امت واحدہ نہیں بن پاتی۔ ہمارے لیڈر محمد عربیﷺ ہمیں کہہ کر گئے تھے: ’’تمام مسلمان ایک جسم واحد کی طرح ہیں، جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔‘‘
لیکن آج یہ امت اس سبق کو بھلا بیٹھی ہے۔ ہمارا رشتہ تو لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا لیکن آج ہم پاکستانی، ہندوستانی، امریکی، سعودی، افغانی، کویتی ہونے کی بنیاد پر ایک دوسرے پر اپنی فضیلت جتاتے پھرتے ہیں۔ ’’میں وہی کروں گا جو میرے وطن کے لئے اچھا ہے چاہے وہ اخلاقی لحاظ سے بُرا ہو‘‘ یہ کہہ کر ہم اسلام کی جڑ اپنے ہاتھوں سے کاٹتے ہیں۔
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
لوگوں نے وطن کی تعظیم اور اسکو الٰہ ثابت کرنے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ ملکی نظام تعلیم اور میڈیا کے ذریعے قوم کی تربیت اس طرح کی کہ وہ اپنے ہر عمل کی غرض و غایت وطن ہی کو قرار دے، لوگ وطن کے لئے جہاد کرتے ہیں، وطن کے لئے عطیات دیتے ہیں، وطن کے لئے جان قربان کرتے ہیں اور اسی طرح دوستی اور دشمنی بھی صرف وطن کے لئے ہی روا رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جب کفر ان کے مسلمان بھائی ملک پر چڑھ دوڑے تو ڈالروں کے عوض کفر کے اتحادی بھی بن جاتے ہیں اور قوم کو یہ کہہ کر بیوقوف قوم کی حمایت حاصل کرتے ہیں کہ وطن سب سے پہلے ہے۔
ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا:
’’ ایک شخص غنیمت کے حصول کے لئے لڑتا ہے، ایک شخص شہرت کے لئے لڑتا ہے اور ایک شخص اپنا آپ دکھانے کے لئے لڑتا ہے۔ ان سب میں اللہ کے راستے میں کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے کلمے کی سر بلندی کے لئے قتال کرے وہی اللہ کے راستے میں ہے‘‘۔ (صحیح بخاری 2810، صحیح مسلم 1904)
شرعی طور پر وہی قتال محبوب اور قابل قبول ہے جس کا مقصد صرف اور صرف زمین میں اللہ کے کلمے کی سر بلندی ہو۔ اس کے علاوہ تمام لڑائیاں جھوٹی ہیں کیونکہ ان کی غرض و غایت بھی جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ طاغوت کے راستے کے قتال شمار ہونگے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد فرمایا گیا:
’’ جو لوگ ایمان لائے وہ تو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں‘‘۔ (النساء : 76)
لہذٰا قرآن کے مطابق قتال کی دہ ہی قسمیں ہیں، ایک اللہ کے لئے اور ایک طاغوت کے لئے، تیسری کوئی قسم نہیں ہے۔ یا تو اللہ کے راستے میں قتال ہے یا پھر طاغوت کے راستے کا قتال ہے۔ یہ دونوں بالکل واضح ہیں، اس میں کسی قسم کے خلط ملط ہونے یا الجھاؤ کا کوئی شائبہ نہیں۔ ہر وہ قتال جو اللہ کے راستے میں نہیں ہے وہ طاغوت کے راستے کا قتال ہے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ دو متضاد امور ہیں، ایک طرف تو یہ ہے کہ آدمی کے لئے وطن کے راستے میں قربانی دینا اور قتال کرنا جائز نہیں ہے اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ارضِ اسلام اور مسلمانوں کے اوطان کا دفاع کرنا ایک شرعی فریضہ ہے اور ہر مسلمان کو یہ فریضہ ضرور انجام دینا چاہیے، ان دونوں امور میں کس طرح تطبیق دی جائے گی؟ اسی طرح حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ’’ جو آدمی اپنے مال یا عزت کی خاطر قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے‘‘ اس کا کیا مفہوم ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: الحمداللہ ان دونوں امور کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ کے راستے میں اور اس کے کلمے کی سر بلندی کے لئے کسی چیز کے دفاع میں لڑنے کو اسلام نے مشروع قرار دیا ہے اور ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے افضل ترین عمل ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کسی تعصب (وطن، قوم یا برادری) کی حمیت کی خاطر اس کے دفاع کے لئے لڑنا باطل ہے اور شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ اس سے اعمال کا غیر اللہ کی طرف پھیرنا لازم آتا ہے۔
اسی طرح وطن کی محبت اور اس کی طرف میلان کا ہونا جو کہ شرعی طور پر ایک جائز عمل ہے۔ جبکہ وطن کی بنیاد پر الوالاء والبراء قائم کرنا حرام ہے۔ انسان کا مقصدِ حیات یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس کے تمام اعمال صرف اور صرف وطن کی خاطر ہو رہے ہوں۔ یہ بات شرعی طور پر جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے وطن کا اللہ کے ساتھ شریک کرنا لازم آتا ہے۔ اکثر لوگ ان دونوں کے درمیان خلط ملط کا شکار ہو جاتے ہیں۔
محمد کریمﷺ کو مکہ تمام روئے زمین پر سب سے زیادہ عزیز تھا۔ لیکن آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے زیادہ محبوب اور اس کا مرتبہ سب سے اعلیٰ و ارفع تھا۔ اسی لئے جب آپﷺ کو جائے پیدائش، آپﷺ کے بچپن اور جوانی کے گزرنے کی جگہ یعنی آپﷺ کے محبوب وطن مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم دیا تو آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطراپنا وطن چھوڑ دیا اور یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ صحابہ کرام اور تابعین رضوان اللہ علیہ بھی نبی کریمﷺ کے اس طریقے پر جیتے رہے۔ اور ہم بھی اس طریقے کی اقتدا کرنے والے ہیں۔ جب ہمارے نبیﷺ نے اللہ کے حکم کے آگے وطن کو کوئی حیثیت نہ دی تو ہم کون ہوتے ہیں لا الٰہ الا اللہ کے رشتے پر وطن کو ترجیح دینے والے؟
ہے ترکِ وطن سنتِ محبوب الٰہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
No comments:
Post a Comment