Pages

Subscribe:

Labels

Wednesday 8 February 2012

14فروری، یوم غیرت

14فروری، یوم غیرت
قمرالزمان مصطفوی

یہ کچھ دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند
غیرت نہ تجھ میں ہوگی نہ زن اوٹ چاہے گی
اس کشمکش میں "معتدل" مسلمان اور یہود ایک طرف ہیں اور "بنیاد پرست" مسلمان دوسری طرف! (رچرڈ نکسن)
یہ قول سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس میں کس کشمکش کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے؟ یہ ہے کفر اور اسلام کی باہمی دشمنی جو انقلاب اسلام کے روز اول سے لیکر اب تک جاری ہے۔ یہ کفر اور اسلام کے درمیان وہ کشمکش ہے جس میں عمربن الخطاب کی شہادت ہوئی، عثمان غنی کو شہید کیا گیا، علی شیر اللہ کو خنجر مارا گیا،رضوان اللہ علیہ، اور اس میں کربلا جیسے میدان بھی سجے۔وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے انسان نے ترقی کی، جنگی ہتھیار بھی جدید ہوتے گئے۔ کسی دور میں صرف تلواروں پر اکتفا کیا جاتا تھا، بعد میں کلاشن کوف بھی آگئی۔ لیکن اب جنگ صرف میدانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ نظریات کے محاذ پر بھی یہ جنگ زور و شور سے جاری ہے۔

تاریخ کے کچھ صفحات پلٹے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1897ء میں آسٹریا میں یہودی Zionists جو کہ چوٹی کے بنکرز تھے اکٹھے ہوتے ہیں، اور عالمی غلبہ کی ایک سکیم کا آغاز کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے جس طریقہ کار کو اپنایا، اس کے تین بنیادی اہداف تھے:
1- لادینیت Secularismکو پوری دنیا میں فروغ دیا جائے۔ تاکہ لوگوں میں مذہب سے دور ی پیدا ہو۔
2- اِباحیت Sexual Anarchy کو بھرپور فروغ دیا جائے اور لوگوں کو شراب، زنا، فحاشی اور عریانی جیسے جرائم میں ملوث کر کے انہیں ذہنی طور پر کمزور کیا جائے۔
3- سود اور بینکنگ Interest and Banking کا وسیع جال عالمی سطح پر بچھایا جائے، تاکہ معاشی سطح پر پوری دنیا کو پنجہ یہود میں اچھی طرح جکڑلیاجائے۔
یہ تھی یہود کی وہ حکمت عملی جو پوری دنیا پر عالمی غلبہ کے لئے اپنائی گئی، اور آج یہ کس قدر کامیاب ہے ،محتاج بیان نہیں۔ لیکن میں یہاں اباحیت پر بات آگے بڑھانا چاہوں گا۔ اس مقصد کے لئے قوم یہود نے میڈیا کے میدان میں بھی شب و روز محنت شروع کر دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1985ء میں امریکہ کے اندر مذہبی ٹی وی اسٹیشنز 1500 اور ریڈیو اسٹیشنز1200 کے قریب تھے، جو روزانہ 17 گھنٹے الحاد اور گمراہی کی دعوت دینے کا فریضہ انجام دیتے۔یہ نشریاتی اسٹیشنز ہر دور میں جدید آلات سے لیس رہے ہیں۔ 1980ء کے ایک سروے کے مطابق یہ کہا گیا کہ "امریکہ میں ہر ہفتہ کم از کم ایک ریڈیو اسٹیشن اور ہر ماہ ایک ٹی وی چینل کا افتتاح ہوتا ہے۔" اس وقت دنیا کا 96 فیصد میڈیا براہ راست قوم یہود کی ملکیت ہے۔ Walt Disney کی بات کر لیں یا Time Warners کی، Fox Channel کو دیکھا جائے یا Time Magazine پڑھا جائے، ہر جگہ یہود ہی سرپرست اعلیٰ ہیں۔
محاذوں پر لڑائی تو جاری ہے ہی مگر اس سے بڑے حملے ہمارے نظریات کے محاذوں پر ہو رہے ہیں۔ جب کسی قوم کو مذہب سے بیزار، فحاشی میں گرفتار کر لیا جائے تو ایسی قوم کو زیر کرنے کے لئے زیادہ محنت درکار نہیں ہوتی۔ جب کسی قوم کی درسگاہیں رقص گاہیں بنا دی جائیں تو وہ قوم کبھی کسی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ،صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم رحمتہ اللہ علیہ کو جنم نہیں دے سکتی۔ جب قوم کا نو جوان شراب کے نشے میں مست ہو جائے تو اس قوم کی آبرو غیر محفوظ ہو جاتی ہے۔ جب کوئی معاشرہ، تہذیب و ثقافت اور میڈیا نسل نو کے اساسی تصور یا فکری ورثے کے فروغ کی بجائے عشق و محبت کے کردار اور بے راہ روی کی طرف رہنمائی کرے تو پھر اس قوم کو اپنے تحفظ کی بقاء کے لئے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
"اللہ نہ کرے اسلام کا نام جب بھی ڈوبا مسلمانوں کے ہاتھوں سے ڈوبے گا۔ ہماری تاریخ غداروں کی تاریخ بنتی جارہی ہے۔ یہ رجحان بتا رہا ہے کہ ایک روز مسلمان جو برائے نام مسلمان ہوں گے اپنی سر زمین کفار کے حوالے کر دیں گے۔ اگر اسلام کہیں زندہ رہا تو وہاں مسجدیں کم اور قحبہ خانے زیادہ ہوں گے۔ ہماری بیٹیاں صلیبیوں کی طرح بال کھلے چھوڑ کر بے حیاء ہو جائیں گی۔ کفار انہیں اسی راستے پر ڈال رہے ہیں، بلکہ ڈال چکے ہیں۔۔۔"  (صلاح الدین ایوبی)
مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ انسان سے شرم و حیاء اور غیرت چھین کر جنسی تسکین میں اسے حیوانوں کے برابر لا کھڑا کیا جائے تاکہ ماں، بہن اور بیٹی، بیوی کے درمیان مقدس رشتوں کی جو دیواریں کھڑی ہیں ان کو گرا دیا جائے۔ انہی سازشوں کی ایک کڑی ویلنٹائن ڈے ہے جس دن کو "یوم محبت" کے طور پر منانے کے لئے آج ہماری نوجون نسل اپنی ساری توانائیاں خرچ کر رہی ہے۔ اس دن غیر شادی شدہ نوجوان طبقہ میں غیر معمولی جوش و خروش دیکھا گیا ہے حتیٰ کہ انگریزی اخبارات کے علاوہ اردو کے اکثر اخبارات نے بھی اس روز ویلنٹائن ڈے کے ٖفحاشی پر مبنی فلسفے کو اجاگر کرنے میں خاصا کردار ادا کیا ہے اور جتنا بے حیائی کا اجتماعی مظاہرہ اس دن کیا جاتا ہے شاید مغرب سے امپورٹ کئے جانے والے مغرب کے تہواروں میں سے کوئی بھی اس سطح کو نہیں پہنچ سکا ہوگا۔ اب پاکستان میں بھی 14 فروری کے آتے ہی اس دن کی تیاریاں ہونے لگتی ہیں۔ میڈیا پر خصوصی تشہیر اور پروگرامز نشر ہوتے ہیں۔ نسل نو ،مقصد حیات سے بے پرواہ ہو کر بے حودگی کے وہ کھیل کھیلتی ہے کہ شیطان بھی شرمندہ ہوتا نظر آتا ہے۔ پہلے پہل یہ وبا خاص طبقے تک محدود تھی، آہستہ آہستہ خاص و عام کی تمیزبھی ختم ہو گئی اور ہر طبقے کا فرد اِس کی زد میں آگیا اور تو اور ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا سبق دیا جانے لگا ہے۔
14 فروری جسے ہم اسلام کے منافی کہتے نہیں تھکتے، کی سب سے زیادہ دھوم ہمارے ہی گھروں اور محلوں میں ہوتی ہے۔ کالج کی بات جانے دیں، پرائمری اور مڈل سکول کے طلبہ و طالبات بھی باقاعدگی سے "ویلنٹائن ڈے" منانے لگتے ہیں، حالانکہ یہ دن منانے والوں کی بڑی تعداد اس دن کی حقیقت سے نا واقف ہے اور آپ یہ سن کر شاید حیران ہو جائیں کہ پچھلے سال میں نے اس موقع پر انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کے عیسائی لوگوں سے بات چیت کی جن کی طرف اس دن کو منسوب کیا جاتا ہے، تواکثریت سے بھی زیادہ خود بھی نا واقف تھی، کہ "اِس دن ہوا کیا تھا؟" کچھ یہی حال ہماری نسل نو کا بھی ہے، جس کی اکثریت اس دن کی حقیقت سے نا واقف تو ہے مگر فلموں اور ٹی وی اشتہارات کے ذریعے انہیں اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اُونچی سوسائٹی کے چونچلے ہیں اور یہ کہ اس کو نہ منانے والے پسماندہ اور دقیانوس کہلاتے ہیں۔ لہذٰا خوشی خوشی عشق فرمانے کا کارنامہ انجام دینے لگتے ہیں۔ اور کم عمری میں ہی بلوغت کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں۔
گزشتہ سال 14فروری کو ہی "ویلنٹائین ڈے" پر باقاعدہ کراچی کے ایک روزنامے میں اشتہار شائع ہوا۔ لکھا تھا۔۔
"زندہ دل عاشقوں کے لئے ویلنٹائن ڈے کا خاص پروگرام 14 فروری کی رات محفل رقص منعقد ہو رہی ہے ۔ خواہشمند جوڑے اِس محفل میں 1999Rs کا ڈنر ٹکٹ خرید کر شرکت کر سکتے ہیں، البتہ ڈیفینس ہائوسنگ اتھارٹی کے ممبران کو خصوصی رعایت دی جائے گی۔"
اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تہوار اور اس کے منانے والے جوڑے کی خواہشات کیا ہیں۔ رقص و سرور میں محبت کا اظہار کیا گل کھلاتا ہے، صاحب عقل خوب جانتے ہیں۔
کچھ سال قبل لاہور میں این سی اے کے طلباء و طالبات نے اخبارات میں بیانات جار ی کرنے اور تصاویر شائع کرنے کے لئے خصوصی اہتمام کیا۔ طالبات نے بے ہودہ انداز کے ساتھ تصاویر اتروائیں، جو پاکستان کے تمام بڑے اخبارات کی زینت بنیں۔ طلباء و طالبات نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم کارڈ، پھول اور چاکلیٹ کی بھرپور خریداری کے ساتھ ویلنٹائن ڈے بڑے اہتمام کے ساتھ منائیں گی۔
وضع میں ہو تم نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں کہ جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
لاہور میں طالبات کی ایک اہم درسگاہ کنیرڈ کالج میں بھی ویلنٹائن ڈے کی خصوصی تقریب منعقد کی گئی، جس میں خصوصی جوڑوں کو دعوت دی گئی اور کالج کی طالبات نے ایک دوسرے کو محبت بھرے تحائف اور پھول دئیے۔ اس موقع پر کالج میں ایک میوزیکل شو بھی ہوا جس میں مختلیف مراثیوں (معاف کیجئے گا میرا مطلب) گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔ شرکاء نے ڈانس کر کے دل بہلایا۔ اس شو میں شرکت کرنے والے بعض نوجوان بے ساختہ کہہ اٹھے کہ "ہم نے ایسا بے ہودہ ماحول پاکستان میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔"
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے گی صدا لا الہ الا اللہ
"ویلنٹائن ڈے" کا آغاز کہاں سے ہوا اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں ملتی۔ انسائکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق اس کا تعلق رومیوں کے دیوتا لوپر کالیا (Luper Calia) سے ہے جہاں بطور تہوار کے یہ دن منایا جاتا تھا اور بعض کے مطابق اس کا تعلق سینٹ ویلنٹائن سے ہے بہرحال یہ بات تو پکی ہے کہ اس کا مسلمانوں سے دور کا بھی کوئی رشتہ نہیں۔
ویلنٹائن ڈے کے متعلق مستند روایات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ دن رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے جسے محبت کا دیوتا بھی کہتے ہیں۔ اس روایت کے مطابق ویلنٹائن نامی اس شخص کو مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید رکھا گیا لیکن بعد میں سولی چڑھا دیا گیا، قید کے دوران موصوف کو جیلر کی بیٹی سے عشق ہو گیا۔ سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے ویلنٹائن نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوداعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا "تمہارا ویلنٹائن"۔ اور یہ واقعہ 14 فروری 469ء کو ہوا، یوں محبت کرنے والوں کے لئے ویلنٹائن کو پیش رو تسلیم کیا جانے لگا اور اس کی یاد میں 14 فروری "یوم تجدید محبت" بن گیا۔
محبت کرنے والوں نے "ویلنٹائن ڈے" کے نام سے "14 فروری" کو ایک تہوار کی شکل دے دی، صدیوں سے یہ مغرب میں منایا جاتا رہا جس میں محبت کرنے والے جوڑے ایک دوسرے کو پھول اور تحائف پیش کرتے تھے مشرق والے اس سے نا آشنا رہے لیکن ڈش اور چینل کے فروغ کے بعد ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے نشر ہونے والے پروگراموں کی وجہ سے ویلنٹائن ڈے پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کر گیا اب یہ پاکستان سمیت مختلیف ممالک میں منایا جاتا ہے۔ (بمطابق روزنامہ جنگ 14فروری2001ء)
ایک روایت یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ایک رومی پادری تھا جس کا نام ویلنٹائن تھا اور پادری چونکہ عیسائیوں کے ہاں مقدس باپ کا درجہ رکھتا ہے جو گناہوں سے لوگوں کو پاک کرتا ہے اور کلیساوں میں مقیم کنواری لڑکیاں راہبائیں کہلاتی ہیں جو عمر بھر شادی نہیں کرتیں اور راہب کا کسی سے تعلق استوار کرنا مذہبی جرم سمجھا جاتا ہے لیکن پادری ویلنٹائن ایک راہبہ پر عاشق ہو گئے جب کہ راہبہ سے تعلق استوار نہیں ہو سکتے تھے، چنانچہ پادری نے راہبہ کو گناہ میں ملوث کرنے کے لئے بتایا کہ مجھے خواب میں اس بات کی اطلاع دی گئی ہے کہ اگر 14فروری کو کوئی راہب یا راہبہ آپس میں زنا کر لیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا آخر دونوں نے ایسا کر لیا اور یوں کلیسا کے مذہبی تقدس کو پامال کیا چنانچہ دونوں کو اس جرم کی پاداش میں قتل کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد بعض لوگوں نے ایک دوسرے سے اظہار محبت کے لئے ویلنٹائن کو شہید محبت کا درجہ دے کر 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کے نام سے منانا شروع کردیا۔ ویلنٹائن کے پیغام کا سب سے پرانا کارڈ لندن کی لائبریری میں موجود ہے یہ کارڈ پانچ سو سال قبل ایک لڑکی نے اپنے منگیتر کو بھیجا تھا اس کارڈ میں لکھا ہے کہ اگر تم مجھ سے پیار کرتے ہو تو آکر مجھ سے شادی کر لو اور جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق رومی تہوار لوپر کالیا سے ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس تہوار پر روم کے مرد حضرات اپنی قمیصوں پر اپنی دوست محبوباوں کے نام لگا کر چلتے تھے، اسی سے یہ دن مختلیف شکلیں بدلتا اس روپ کو پہنچا ہے۔
مذکورہ معلومات سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کا تعلق خواہ رومن لوگوں سے ہو یا اہل مغرب سے ، اسلام سے اس کا کوئی تعلق ہرگز نہیں اور جو لوگ ابھی بھی یہ دن منانے کے لئے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے یہ فرمان بھی پڑھ لیں۔
" وہ لوگ جو ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔" (النور : 19)
اسلام تو ہمیں شرم و حیاء کا درس دیتا ہے، اسلام نوجوانوں سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غیر خواتین کا وہ احترام کریں جو حقیقی بہن کا احترام ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ذیل کا واقع کس قدر نصیحت آموز ہے۔
ایک دن رسول اللہ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ اتنے میں ایک نو جوان نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! مجھے زنا کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔"
مجلس نبوی میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے جب نوجوان کی گفتگو سنی تو سخت ناراض ہوئے، غصے سے ان کی رگوں میں خون تیز ہو گیا۔
اللہ کے رسول نے صحابہ کرام کو خاموش رہنے کا حکم دیا اور خود نوجوان کو اپنے قریب کیا اور فرمایا: "مجھے بتاو! کیا چاہتے ہو؟"
نوجوان کہتا ہے: "یا رسول اللہ مجھے زنا کی اجازت مرحمت فرمائیں۔"
رسول اللہ نے فرمایا: "اے نوجوان! جس کام کی اجازت تو مانگ رہا ہے، کیا تو چاہے گا کہ تیری ماں کے ساتھ یہی کام کیا جائے؟"
نوجوان کہتا ہے: "قربان جاوں، اے اللہ کے رسول ہرگز نہیں!"
رسول اللہ نے فرمایا: "لوگ بھی اپنی ماوں کے ساتھ یہ کام نہیں چاہتے۔ کیا تو پسند کرے گا کہ تیری بیٹی کے ساتھ یہ کام ہو؟ "
نوجوان کہتا ہے: نہیں اللہ کے رسول ، اللہ کی قسم میں ایسا نہیں چاہتا میں آپ پر قربان ہو جاوں۔
رسول اللہ نے فرمایا: "لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لئے یہ کام نہیں چاہتے۔ کیا تو اپنی بہن کے ساتھ اس کام سے راضی ہے؟" اس طرح آپ نے پھوپھی اور خالہ کا بھی نام لیا۔ نو جوان ہر ایک کے جواب میں کہتا رہا: قربان جاوں، ہرگز نہیں!" پھر رسول اللہ نے نوجوان کو سمجھایا کہ بالکل اسی طرح کوئی بھی آدمی اسے گوارا نہیں کرے گا کیونکہ جب کسی بھی عورت سے زنا کا ارتکاب کیا جائے گا تو وہ کسی کی ماں، بہن، بیٹی، پھوپھی یا خالہ ہی ہوگی۔ (صحیح) مسند احمد 265/5، سلسلہ احادیث صحیحہ 712/1
اسلام صرف بے حیائی کو برا نہیں کہتا بلکہ اس بیماری کا علاج بھی دیتا ہے، یہی تو اسلام کا امتیاز ہے کہ برائی کو نہ صرف برا کہتا ہے بلکہ اس کے اسباب بھی بتاتا ہے اور اس کو ختم کرنے کا طریقہ بھی بتاتا ہے تاکہ برائی کا پودا جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
" اے نوجوانو کی جماعت تم میں سے جو قوت رکھتا ہے نکاح کر لے اس لئے کہ نکاح کا عمل آنکھ کو زیادہ جھکا دینے والا اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والا ہےاور جو اس کی قوت نہ رکھے وہ روزے لازمی رکھے اس لئے کہ وہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔"
(صحیح بخاری، کتاب النکاح)
جب والدین کی یہ سوچ بن جائے گی کہ جی بیٹا جب تک اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہوگا اس کی شادی نہیں کرانی، تو آزاد میڈیا کے اس معاشرے میں بے حیائی ہی پھیلے گی۔ اسلامی نظام میں انسانیت کا فائدہ ہی فائدہ ہے اگر انسان خود اپنا بھلا سوچنا چاہے۔ مسلمانیت کی سفید چادر پر گندگی کا داغ نہ لگ جائے اس لئے بے حیائی کا ہر کام مسلمانیت کے منافی ہے اسلامی غیرت کے منافی ہے اور معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور بے حیائی کے ایسے کام کرنے والے نہ اسلام کو پسند ہیں نہ اللہ کو۔
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

No comments:

Post a Comment