اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے جو خالق حقیقی کی طرف سے آیا ہے۔ اللہ ایک ہے جس نے انسان کو اور اس ساری کائنات کو پیدا کیا اور انسان کو طبعی قوانین کے ماتحت کر دیا جو اس کائنات پر لاگو کئے گئے۔ قرآن جو کہ محمد عربیﷺ پر نازل ہوا انسان کو اس طبعی دنیا کے متعلق سوچنے اور اس کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ وہ خالق حقیقی کی معرفت حاصل کرے اور اس کی کبریائی بیان کرے۔
یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عریانی
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عریانی
قرآن کی قریبا ایک ہزار آیات اس طبعی دنیا اور اس میں وقوع پذیر ہونے والے کئی مظاہر کی وضاحت کرتی ہیں جو کہ اس بات کی قطعی قطعی دلیل ہے کہ یہ وحی خالق کی طرف سے مخلوق کی طرف آئی ہے۔ جس میں کئی وضاحتیں تو نزول کے وقت عوام الناس نہ سمجھ سکے کیونکہ اس وقت انسان کے پاس وہ آلات میسر نہیں تھے جو آج جدید دور میں موجود ہیں۔ جیسا کہ مائکروسکوپ ، ایکس ریز اور دوسرے جدید آلات وغیرہ۔ پچھلے سو سالوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے
میدان میں بے پناہ ترقی کے نتیجے میں قرآن کی ان سائنسی وضاحتوں کو سمجھنا ممکن ہو سکا۔ الحمداللہ قرآن خالق حقیقی کی طرف سے آیا ہے اور اپنی اصلی حالت میں اب تک موجود ہے، اور کائنات کی تخلیق سے لے کر جاندار کی پیدائش کے لئے سپرم بننے تک اس میں کئی وضاحتیں موجود ہیں۔ قرآن مجید کا یہ چیلنج ہے کہ اس کی سورتوں جیسی صرف ایک سورت بنا لاؤ! قرآن مجید نے اس چیلنج کو کئی بار دہرایا ہے کہ صرف ایک سورت ہی ایسی بنا لاؤ جو خوبصورتی اور فصاحت و بلاغت میں قرآنی سورتوں کا مقابلہ کرتی ہو مگر آج تک کوئی شخص یہ چیلنج قبول نہیں کر سکا۔
میدان میں بے پناہ ترقی کے نتیجے میں قرآن کی ان سائنسی وضاحتوں کو سمجھنا ممکن ہو سکا۔ الحمداللہ قرآن خالق حقیقی کی طرف سے آیا ہے اور اپنی اصلی حالت میں اب تک موجود ہے، اور کائنات کی تخلیق سے لے کر جاندار کی پیدائش کے لئے سپرم بننے تک اس میں کئی وضاحتیں موجود ہیں۔ قرآن مجید کا یہ چیلنج ہے کہ اس کی سورتوں جیسی صرف ایک سورت بنا لاؤ! قرآن مجید نے اس چیلنج کو کئی بار دہرایا ہے کہ صرف ایک سورت ہی ایسی بنا لاؤ جو خوبصورتی اور فصاحت و بلاغت میں قرآنی سورتوں کا مقابلہ کرتی ہو مگر آج تک کوئی شخص یہ چیلنج قبول نہیں کر سکا۔
’’ اور اگر تم اس قرآن کے متعلق شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا تو تم اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔ چنانچہ اگر تم (سارے ملکر بھی یہ کام) نہ کر سکو اور تم کر بھی نہیں سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔‘‘ (البقرہ : 23,24)
بگ بینگ تھیوری
’’ کیا کافروں نے نہیں دیکھا (غور کیا) کہ بے شک آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے ان دونوں کو الگ الگ کر دیا، اور ہم نے پانی سے ہر زندہ شے بنائی، کیا پھر وہ ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (الانبیاء : 30)
کہکشاؤں کی تخلیق
’’ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں تھا‘‘۔ (حٰم السجدۃ : 11)
چاند کی منعکس شدہ روشنی
’’ وہ ذات بڑی با برکت ہے جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں چراغ (سورج) اور روشن چاند بنایا‘‘۔ (الفرقان : 61)
سورج ساکن نہیں
’’ اور وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا، سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں‘‘۔ (الانبیاء : 33)
میٹھا اور کھارا پانی
’’ رحمان نے دو سمندر جاری کئے جو باہم ملتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے، وہ دونوں (اس سے) تجاوز نہیں کرتے‘‘۔ (الرحمٰن : 19,20)
دوران خون اور دودھ کی پیداوار
’’ اور بے شک تمہارے لئے چوپایوں میں بھی عبرت (غوروفکر) کا سامان ہے۔ ہم تمہیں پلاتے ہیں اس سے جو ان کے پیٹوں میں ہے، گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ، پینے والوں کے لئے نہایت خوشگوار‘‘۔ (النحل : 66)
مادہ منویہ سے انسان کی تخلیق
’’ چنانچہ انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ وہ اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘۔ (الطارق : 5-7)
اگرچہ قرآن طبعی دنیا کی طرف اشارہ کر کے انسان کو دعوتِ فکر دیتا ہے اور طبعی قوانین دریافت کرنے کے لئے انسانوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ قرآن صرف سائنس کی کوئی کتاب نہیں، بلکہ یہ کتاب انسان کا اس کی ذات، اس کے ماحول، جاننے والوں اور خالق کے ساتھ اس کا تعلق قائم کرنے کے لئے آئی ہے۔ اس لئے اسلامی قانون سائنسی حقائق کے موزوں استعمال کو بیان کرتا ہے نہ کہ ایجادات کو۔ مثال کے طور پر اسلام لوگوں کو Space Craft ڈیزائن کرنے اور Laser Gun بنانے سے نہیں روکتا مگر اسلام نے ان کے استعمال کے لئے کچھ اصول مقرر کر دئیے ہیں۔ اس بات کا ثبوت کہ اسلام سائنسی ایجادات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا اس واقعہ میں ملتا ہے:
صحیح مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ ’’رسول اللہﷺ کا ایک دفعہ کچھ کسانوں کے پاس سے گزر ہوا جو کھجورکے درختوں کو پیوند لگا رہے تھے۔ آپﷺ کے سوال کرنے پر بتایا گیا کہ اس عمل سے پھل زیادہ ہوتا ہے، اس پر آپﷺ نے فرمایا : میرے خیال میں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ بات جب ان کسانوں کو پتہ چلی تو انہوں نے پیوند کاری چھوڑ دی۔ بعد میں جب رسول اللہﷺ کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا کہ کھجور کے درختوں سے پھل کم اُترے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر پیوند کاری کا کوئی فائدہ ہے تو انہیں یہ کام کرتے رہنا چاہیے کیونکہ میں نے تو اپنی ذاتی رائے دی تھی اور میری ذاتی رائے کی پیروی ضروری نہیں ہے، لیکن جب میں تمہیں اللہ کا حکم دوں تو اس کا ماننا ضروری ہے۔‘‘
اس سے ظاہر ہوا کہ آپﷺ کی یہ نصیحت وحی الٰہی میں سے نہیں تھی بلکہ یہ آپﷺ کی بحیثیت انسان ایک ذاتی رائے تھی۔ اس طرح لوگوں کو اجازت دی گئی کہ وہ سائنسی ایجادات کریں اورشرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان کا اطلاق کریں۔اس کے علاوہ پوری اسلامی تاریخ میں اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اسلامی ریاست اور اس کے علماء نے کبھی سائنسی معاملات پر فتوے دیے ہوں، جس طرح یورپ میں چرچ سائنسی معاملات میں مداخلت کرتا تھا، اور سائنسدانوں پر ملحد اور کافر کے فتوے لگاتا تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی مسلمان سائنسی قائدین خود علماء تھے، اور انہوں نے اسلام اور سائنس کے درمیان کوئی تضاد نہ پایا۔اگرچہ کچھ سائنسدان اپنے اصل موضوع (سائنس) سے ہٹے اور انہوں نے اسلامی عقائد کے متعلق غلط نظریات کی اشاعت کرنا چاہی تو ان کی اچھے انداز میں اصلاح کر دی گئی نہ کہ ان پر کوئی جسمانی تشدد کیا گیا، جیسا کہ چرچ اپنے سائنسدانوں پر جبر کرتا تھا، جس کے باعث بالآخر چرچ کو ریاست سے الگ ہونا پڑا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی کو پروموٹ نہ کرتا تو آج IT کے اس دور میں صرف ایک کمپیوٹر نہیں بن سکتا تھا۔
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارا
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارا
No comments:
Post a Comment