Pages

Subscribe:

Labels

Sunday 5 February 2012

اسلامی تاریخ میں سائنسی ترقی کے عناصر

اسلامی تاریخ میں سائنسی ترقی کے عناصر
قمرالزمان مصطفوی

یہ نظریہ کہ مذہب سائنسی ترقی کے خلاف ہے، اس نظریہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلم لوگوں کو سائنس کے میدان میں زیادہ تر کامیابیاں اسلامی خلافت کے دوران حاصل ہوئیں، نہ کہ اتفاقی اور حادثاتی طور پر ایسا ہونا ممکن ہوا اور نہ کہ جب اسلام عملی زندگیوں سے باہر کر دیا گیا۔
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِآدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی

اس جذبے کا محرک کیا تھا ؟کہ لوگ سائنس کا علم حاصل کرنا چاہتے اور اس میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے جستجو کرتے؟ کیا چیز تھی جو اسلامی ریاست کے شہریوں کو سائنس کے مختلیف شعبہ جات کی طرف کھینچ کر لائی؟ کیا وہ لوگ بہت دولت مند اور فارغ تھے جن کے پاس پڑھنے اور سوچ بچار کرنے کے لئے وقت ہی وقت تھا؟ ی
اوہ محض شہرت حاصل کرنے کے چکروں میں ایسا کر رہے تھے؟ یا انہیں دولت اور لالچ دے کر ایسا کرنے کے لئے محرک کیا گیا؟
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سائنسی ترقی کے اصل محرکات اسلامی ریاست کی بہترین پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوئے نہ کہ کسی ایک فرد کی ذاتی کوشش کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن ہوا۔خلفاء جانتے تھے کہ اسلام نے ان پر دو بنیادی فرائض عائد کئے ہیں۔
1-ریاست کے شہریوں کے معاملات کی دیکھ بھال کرنا
2-ریاست کے شہریوں کو بیرونی خطرات سے مکمل طور پر تحفظ فراہم کرنا

سماں اَلفَقرُفَخرِ ی کا رہا شان امارت میں
’’بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا‘‘

جہاں تک ریاست کے شہریوں کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے کی بات ہے تو یہ حکم رسول اللہﷺ کی اس حدیث میں موجود ہے:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ ہر نگران سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کرے گا کہ اس نے اس کی حفاظت کی یا اسے ضائع کر دیا؟‘‘ [الصحیحۃ : 1636]
قرآن وسنت میں موجود بہت سے احکامات کے علاوہ یہ روایت بھی خلیفہ کے کندھوں پر ریاست کے شہریوں کی مکمل دیکھ بھال کا بوجھ ڈالتی ہے۔ لباس، رہائش اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔عوام کی بنیادی ضروریات، حقوق، تحفظ اور ریاست میں لوگوں کے درمیان اختلافات ، جھگڑوں اور مسائل کو حل کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
جیسے جیسے اسلامی ریاست پھیلتی گئی انتظامیہ کے تحت شہریوں کی تعداد اور زمینیں تیزی سے پھیلتی گئیں۔ اس وجہ سے وراثت، زمینوں کی تقسیم، اخراجات، زکوٰۃ اور مال غنیمت کی تقسیم، تعمیرات، زراعت اور میڈیکل سہولیات سے متعلق پیچیدہ مسائل پیدا ہوئے۔ لہذٰا خلفاء کو ان مسائل کے حل کے لئے باقاعدہ منظم طریقہ کار کی ضرورت تھی کیونکہ یہ ریاست کے شہریوں کی دیکھ بھال کے فریضہ میں شامل تھا۔ لہذٰا انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی نہ صرف بھرپور اجازت دی بلکہ سائنسدانوں کومکمل سپورٹ بھی کیا۔ اس بات کا ثبوت ہمیں الخوارزمی کی کتاب الکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلۃ سے ملتا ہے۔
"The fondness for science, by which God has distinguished the Imam al-Mamun, the Commander ot the Faithful....has encouraged me to compose a short work on Calculating by (the rules of) Completion and Reduction confining it to what is easiast and most useful in arithmetic, such as men constantly require in case of inheritance, legacies, partition, law-suits, and trade, and in all their dealings with one another, or where the measuring of lands, the digging of canals, geometrical, computation, and other objects of various sorts and kinds are concerned."
[The Book of Restitution and Comparison]

بیرونی خطرات سے لوگوں کو تحفظ دینے کے لئے یہ کیا گیا کہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف مظبوط فوج تیار کی گئی، جیسا کہ اس کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح ہدایت کی ہے کہ’’ تم طاقت حاصل کرو‘‘۔
’’ اور جہاں تک ہو سکے (فوج کی جمیعت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے اُن کے (مقابلے کے) لئے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔‘‘ 
(سورۃ الانفال آیت60)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس آیت میں قوت پیدا کرو اور گھوڑے تیار رکھو کی طرف خاصا زور دیا گیا ہے۔ آج کی زبان میں یہاں قوت سے مراد ایٹمی ہتھیار اور گھوڑوں سے مراد جنگی سواریاں ہیں جیسے بحری بیڑے اور جنگی جہاز۔ قرآن کی وسعت مضمون کا یہ عالم ہے کہ آج اس ایٹمی دور میں بھی بھاگنے والی مشینوں کی طاقت کو ’’ہارس پاور‘‘ سے ناپا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیت میں تیاری سے مراد مادی قوت حاصل کرنا ہے ، لہذٰا دشمن اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے جدید اسلحہ تیار کرنے کی خاطر سائنس کا علم ضروری ہے۔ اس لئے تحفظ کی غرض سے بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی دینا ضروری سمجھا گیا۔
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سُود بے اثر

اس کے علاوہ سائنسی ترقی کے اور محرکات بھی تھے جیسا کہ Medicine اور Chemistry میں زیادہ ترقی رسول اللہﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے ہوئی، جو کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’بیشک اللہ نے جو بیماری بھی نازل کی یا پیدا کی ہے‘ اسکی دوا بھی پیدا کی ہے (فرق صرف ریسرچ کرنے کا ہے)‘ بعضوں کو اس کا علم ہو گیا اور بعضوں کو نہ ہو سکا، ماسوائے موت کے‘‘۔ (الصحیحۃ : 1650)
اس طرح سائنسدانوں اور ڈاکٹرز کو اس بات کا یقین تھا کہ ہر بیماری کے علاج موجود ہیں، لہذٰا انہوں نے اسے تلاش کرنے کے لئے محنت کی۔
شیدائی غائب نہ رہ، دیوانہ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبود حاظر کا اثر
ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ابتدائی دور میں مسلم اور غیر مسلم لوگوں نے سائنس کے تمام شعبہ جات میں بہت تیزی سے ترقی کی جن شعبہ جات کو آج جدید دور میں جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اسلامی ریاست کے تحت نئے شعبہ جات کی بنیاد رکھی۔ اسلامی ریاست نے نہ صرف شہریوں کو مالی اور مادی مدد دی بلکہ ان سائنسدانوں کو بھی خوشامدید کہا جن کو کلیسا والے چین سے نہیں بیٹھنے دیتے تھے اور انہیں اذیتیں دیتے تھے۔ انہیں عملی زندگی کے مسائل حل کرنے کے لئے بلا روک ٹوک اجازت بھی دی گئی۔ اس طرح اسلامی ریاست نے ایک ایسا ماحول تشکیل دیا جس میں لوگوں نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی، ریسرچ بھی کی اور بلا خوف و خطر مسائل کے حل بھی پیش کئے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے لئے عباسی خلفاء نے بہت زیادہ کردار ادا کیا، کیونکہ انہوں نے باقاعدہ تربیت گاہیں بنائیں جیسا کہ بغداد میں 832ء میں بیت الحکمہ بنایا گیا جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ یونانی اور سنسکرت کے لٹریچر کو عربی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ عباسیوں نے اس دور کے عمدہ مفکروں، علماء اور سائنسدانوں کو اکٹھا کیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر دوسروں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور یوں ریاست کو بھی اعلیٰ درجے کا آؤٹ پٹ ملا جس سے خوشحال اور ترقی یافتہ قوم تشکیل پاسکی۔
عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش!

No comments:

Post a Comment