سائنسی تاریخ میں مسلمانوں کا نام کیسے غائب ہوا؟
قمرالزمان مصطفوی
پچھلے تین سو سالوں میں یورپ نے عالمی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بلا شبہ بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کارنامے میں حصہ لینے والا ہر شخص اپنے نمایاں کردار کے عوض خراج تحسین کا مستحق ہے۔ یورپ میں سائنس کو دیے جانے والے جوش اور اخلاص کی مثال مذکورہ صدیوں میں تو واقعی نہیں ملتی۔ اور دنیا اس عظیم کردار کی احسان مند بھی ہے۔مکمل تاریخ میں یورپ کے بہت سے سائنس دانوں کی زندگیوں اور کارناموں پر تحقیق ہوئی اور انہیں باقاعدہ دستاویزی شکل دی گئی۔ سائنس کے میدان میں ہلا کر رکھ دینے والے اس عظیم کردار کی واضح جھلک سائنسی قوانین کے ناموں، ایجادات اور جدید دریافتوں میں نظر آتی ہے۔ چاچانیوٹن کے قوانین عالمی سطح پر مانے جاتے ہیں۔ وولٹ اور واٹ کے الفاظ پر تحقیق کی جائے تو ان کے پیچھے سرآئزک نیوٹن،
الیگزینڈر وولٹ اور جیمزواٹ جیسے عظیم یورپی سائنس دان جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کے مطابق یورپ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جائے پیدائش (Birth Place) ہے۔ یہ نظریہ اس لئے قائم ہو گیاہے کیونکہ جدید سائنسی دور میںیورپ کی واضح جدوجہد نظر آتی ہے۔ تاریخ کی بہت سی کتب یورپی سائنس دانوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیسا کہ گلیلو اور نیوٹن جدید سائنس کے بابے ہیں۔ اس طرح یہ نظریہ مزید مظبوط کیا جاتا ہے کہ واقعی یورپ ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کی جائے پیدائش ہے۔
تاریخی عبارات کی غیر موجودگی میں، ایک لاعلم قاری کو ایسا تنگ نظریہ رکھنے پر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا آغاز واقعی یورپ سے ہوا، لیکن اگر تاریخ کا سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے جیسا کہ ہم پیپر کی رات کتابوں پر نظر مارتے ہیں، تو اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یورپ میں سائنس اور ٹیکنالوجی نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ خلاء میں پیدا نہیں ہوگئی۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ سوئے ہوئے یورپ کو اچانک جاگ آئی اور وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے رستے پر گامزن ہو گیا، جیسا کہ عام طور پر یہ تصور کیاجاتا ہے۔ تاریخ کا بغور مطالعہ بتاتا ہے کہ حقیقت میں دو عناصر یورپ کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہ پر دھکیلنے کا باعث بنے:
1- سرمایہ درانہ نظام کا اپنایا جانا
2- ہزارسالوں کے سائنسی ورثہ تک یورپ کی رسائی
یورپیوں نے عیسائیت کو ریاست سے لاتعلق کر دیا اور سرمایہ درانہ نظام کو ایک نظریہ کے طور پر اپنا لیا، جو کہ بظاہر ہم خیال نظریہ زندگی، آزادی فکر اور بنیادی حقوق کی یقین دہانی کا ذریعہ لگی۔ مزید براں یورپ ہزارسالوں کے سائنسی ورثہ تک رسائی حاصل کر چکا تھا جو کہ درحقیقت صنعتی انقلاب کے آغاز کے لئے غیر معمولی محرک ثابت ہوا۔ اس طرح یورپ نے اس بنیاد پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قیادت سنبھال لی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ نے ہزارسالوں پر مبنی کس کا ورثہ استعمال کیا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب ہمیشہ گول کر دیا جاتا ہے۔ یورپ میں GreeksاورRomans کے متعلق بہت پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک لمبی چھلانگ لگتی ہے اور یورپ نیوٹن کی گود میں آ کر گرتا ہے۔ اور ہزار سالوں کی تاریخ بڑی سادگی سے حذف کر د جاتی ہے کہ جیسے یہ عرصہ تو انسانیت کے لئے اہم تھا ہی نہیں۔ یہ نہایت معصومیت سے حذف کر دی جانے والی تاریخ کوئی اور تاریخ نہیں بلکہ اسلام کی تاریخ ہے۔ جس میں اسلامی ریاست کے شہریوں نے سائنس کے بہت سے میدانوں میں پوری دنیا کی قیادت کی۔ عظیم سائنسی ورثہ کوئی اور ورثہ نہیں بلکہ اسلام کا سائنسی ورثہ تھا، جو کہ صرف اور صرف اسلامی نظام کا تخلیق کردہ تھا۔ 1000 سال کے اس دورانیے میں اسلام پوری دنیا پر غالب آیا اور اس نے زیادہ تر دنیا کی قیادت کی۔
اس حقیقت کی کوئی وضاحت نہیں کی جاتی کہ یورپ کے سائنسی ورثہ کا زیادہ تر حصہ مسلمانوں کی طرف سے آیا،جنہوں نے نہ صرف یونانیوں ، ایرانیوں اور انڈینز کے کام کو آگے بڑھایا، بلکہ وہ خود اس میدان کے قائدین تھے جنہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں بہت بڑا حصہ ڈالا۔ انہوں نے کئی طرح کی سائنسز کی بنیاد رکھی، قوانین بنائے، اور ایک سائنسی سوچ وضع کی۔ یہ وہی خزانہ ہے جسے یورپ نے Spring Board کے طور پر استعمال کیا، اور اس پر اچھلنے کے بعد اس نے لمبی چھلانگ لگائی۔ بطور ہمدردی اب تک تھوڑا بہت حصہ اسلام اور مسلمانوں کا تسلیم کیا جاتا ہے۔ مزید براں مغرب نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کی سائنسی ترقی، مذہب کو عملی زندگی سے جدا کر دینے کا براہ راست نتیجہ ہے، دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب مذہب کو سیاست سے الگ کرنا ہے۔یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں مذہب انسان کے معاملات کے متعلق رہنمائی نہیں دے سکتا ہے اور اسے اپنانے کا مطلب زندگی کے بہت سے شعبہ جات میں ترقی کا گلہ گھونٹنے کے مترادف ہے، جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ کی پوری تاریخ میں چرچ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بد سلوکی میں ملوث رہا ہے، خاص طور پر سائنس دانوں اور مفکروں کے ساتھ جنہوں نے چرچ کے نظریات کی مخالفت کی۔ یہ سائنسی سوچ کے جمود کی وجہ بنی اور نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب کو غیر فعال، غیر لچکدار اور اختلافات سے بھرپور سمجھا جانے لگا، لہذٰا اسے انسانیت کی ترقی کے لئے غیر مناسب پایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی لوگ واقعی چرچ کے تحت بہت سی اذیتیں جھیل چکے ہیں۔ اس لئے یورپ میں عیسائیت کے بھیانک تجربات کی بنیاد پر صرف یہی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ترقی صرف اور صرف انسانوں کے وضع کردہ قوانین کے نفاذ کی صورت میں ممکن ہے اور اس کے لئے مقدس وحی غیر مناسب اور ناقص ہے۔ لیکن کیا اس مشابہت کا اطلاق اسلام پر بھی ہو سکتا ہے؟ کیا اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی کا گلہ گھونٹتا ہے؟ کیا سائنس اور اسلام ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان جب تک دین پر قائم رہے اس وقت تک انہوں نے سائنس میں خوب ترقی کی اور اس میدان میں پوری دنیا کی قیادت کرتے رہے۔اسلامی سائنسی تاریخ کو چار ادوارمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
-1 دورنبویﷺ (632-622ء)
-2 خلافتِ راشدہ (661-632ء)
-3 خلافتِ امویہ (750-661ء)
-4 خلافتِ عباسیہ (1517-750ء)
-5 خلافتِ عثمانیہ (1924-1517ء)
حجاز، ایران، عراق، ازبکستان، افغانستان، ترکی، ترکستان، مصر، فلسطین، سپین، تیونس، مراکش، شمالی افریقہ، ترکمانستان، سائریا، انڈیا سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں سائنسدانوں نے کیمسٹری، زوالوجی، باٹنی، ریاضیات، فلکیات، فلسفہ، فزکس، آپٹکس، انجنیرنگ، جیومیٹری، مکینکس، میڈیسن، سول انجنیرنگ، آپتھل مالوجی، سوشیالوجی، لوجک، سرجری، جیوگرافی، فارماکالوجی، شاعری، کیلی گرافی، تھیالوجی، فقہ، تاریخ، عدلیہ اور اس طرح سے بہت سے میدانوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔حتیٰ کہ یورپی زبانوں میں اس وقت ان گنت عربی الفاظ اور سائنسی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں جو کہ جدید سائنس کے لئے مسلمانوں کی گئی خدمت کی زندہ یادگارہیں۔ اس کے علاوہ ایشاء اور یورپ کی لائبریریوں میں پڑی ہوئی کتابیں، کئی ممالک کے عجائب گھر، صدیوں پہلے تعمیر کی گئی مساجد اور محلات انسانیت کی تاریخ میں وقوع پذیر ہونیوالے اس مظہر کی آج بھی شہادت دے رہے ہیں۔
اگر کوئی شخص غیر جانبدار ہو کر پوری ایمانداری سے تاریخ کا مطالعہ کرے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جدید سائنسی انقلاب مسلمان سائنسدانوں کے جذبہ تحقیق کی مرہون منت ہے۔ اگرچہ ہم میں سے اکثر جدید تہذیب پر کئے گئے اپنے اس احسان سے بے خبر ہیں مگر اس کے دئیے گئے تحائف ہماری وراثت کا حصہ ہیں۔ان مسلمان ریاضی دانوں کے بغیر تو جدید ترقی کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا جنہوں نے الجبرا تخلیق کیا اور وہ Algorithms بنائے جو جدید کمپیوٹرز کی بنیاد بنے۔
الیگزینڈر وولٹ اور جیمزواٹ جیسے عظیم یورپی سائنس دان جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کے مطابق یورپ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جائے پیدائش (Birth Place) ہے۔ یہ نظریہ اس لئے قائم ہو گیاہے کیونکہ جدید سائنسی دور میںیورپ کی واضح جدوجہد نظر آتی ہے۔ تاریخ کی بہت سی کتب یورپی سائنس دانوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیسا کہ گلیلو اور نیوٹن جدید سائنس کے بابے ہیں۔ اس طرح یہ نظریہ مزید مظبوط کیا جاتا ہے کہ واقعی یورپ ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کی جائے پیدائش ہے۔
تاریخی عبارات کی غیر موجودگی میں، ایک لاعلم قاری کو ایسا تنگ نظریہ رکھنے پر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا آغاز واقعی یورپ سے ہوا، لیکن اگر تاریخ کا سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے جیسا کہ ہم پیپر کی رات کتابوں پر نظر مارتے ہیں، تو اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یورپ میں سائنس اور ٹیکنالوجی نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ خلاء میں پیدا نہیں ہوگئی۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ سوئے ہوئے یورپ کو اچانک جاگ آئی اور وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے رستے پر گامزن ہو گیا، جیسا کہ عام طور پر یہ تصور کیاجاتا ہے۔ تاریخ کا بغور مطالعہ بتاتا ہے کہ حقیقت میں دو عناصر یورپ کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہ پر دھکیلنے کا باعث بنے:
1- سرمایہ درانہ نظام کا اپنایا جانا
2- ہزارسالوں کے سائنسی ورثہ تک یورپ کی رسائی
یورپیوں نے عیسائیت کو ریاست سے لاتعلق کر دیا اور سرمایہ درانہ نظام کو ایک نظریہ کے طور پر اپنا لیا، جو کہ بظاہر ہم خیال نظریہ زندگی، آزادی فکر اور بنیادی حقوق کی یقین دہانی کا ذریعہ لگی۔ مزید براں یورپ ہزارسالوں کے سائنسی ورثہ تک رسائی حاصل کر چکا تھا جو کہ درحقیقت صنعتی انقلاب کے آغاز کے لئے غیر معمولی محرک ثابت ہوا۔ اس طرح یورپ نے اس بنیاد پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قیادت سنبھال لی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ نے ہزارسالوں پر مبنی کس کا ورثہ استعمال کیا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب ہمیشہ گول کر دیا جاتا ہے۔ یورپ میں GreeksاورRomans کے متعلق بہت پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک لمبی چھلانگ لگتی ہے اور یورپ نیوٹن کی گود میں آ کر گرتا ہے۔ اور ہزار سالوں کی تاریخ بڑی سادگی سے حذف کر د جاتی ہے کہ جیسے یہ عرصہ تو انسانیت کے لئے اہم تھا ہی نہیں۔ یہ نہایت معصومیت سے حذف کر دی جانے والی تاریخ کوئی اور تاریخ نہیں بلکہ اسلام کی تاریخ ہے۔ جس میں اسلامی ریاست کے شہریوں نے سائنس کے بہت سے میدانوں میں پوری دنیا کی قیادت کی۔ عظیم سائنسی ورثہ کوئی اور ورثہ نہیں بلکہ اسلام کا سائنسی ورثہ تھا، جو کہ صرف اور صرف اسلامی نظام کا تخلیق کردہ تھا۔ 1000 سال کے اس دورانیے میں اسلام پوری دنیا پر غالب آیا اور اس نے زیادہ تر دنیا کی قیادت کی۔
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف!
یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ کی پوری تاریخ میں چرچ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بد سلوکی میں ملوث رہا ہے، خاص طور پر سائنس دانوں اور مفکروں کے ساتھ جنہوں نے چرچ کے نظریات کی مخالفت کی۔ یہ سائنسی سوچ کے جمود کی وجہ بنی اور نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب کو غیر فعال، غیر لچکدار اور اختلافات سے بھرپور سمجھا جانے لگا، لہذٰا اسے انسانیت کی ترقی کے لئے غیر مناسب پایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی لوگ واقعی چرچ کے تحت بہت سی اذیتیں جھیل چکے ہیں۔ اس لئے یورپ میں عیسائیت کے بھیانک تجربات کی بنیاد پر صرف یہی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ترقی صرف اور صرف انسانوں کے وضع کردہ قوانین کے نفاذ کی صورت میں ممکن ہے اور اس کے لئے مقدس وحی غیر مناسب اور ناقص ہے۔ لیکن کیا اس مشابہت کا اطلاق اسلام پر بھی ہو سکتا ہے؟ کیا اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی کا گلہ گھونٹتا ہے؟ کیا سائنس اور اسلام ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان جب تک دین پر قائم رہے اس وقت تک انہوں نے سائنس میں خوب ترقی کی اور اس میدان میں پوری دنیا کی قیادت کرتے رہے۔اسلامی سائنسی تاریخ کو چار ادوارمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
-1 دورنبویﷺ (632-622ء)
-2 خلافتِ راشدہ (661-632ء)
-3 خلافتِ امویہ (750-661ء)
-4 خلافتِ عباسیہ (1517-750ء)
-5 خلافتِ عثمانیہ (1924-1517ء)
حجاز، ایران، عراق، ازبکستان، افغانستان، ترکی، ترکستان، مصر، فلسطین، سپین، تیونس، مراکش، شمالی افریقہ، ترکمانستان، سائریا، انڈیا سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں سائنسدانوں نے کیمسٹری، زوالوجی، باٹنی، ریاضیات، فلکیات، فلسفہ، فزکس، آپٹکس، انجنیرنگ، جیومیٹری، مکینکس، میڈیسن، سول انجنیرنگ، آپتھل مالوجی، سوشیالوجی، لوجک، سرجری، جیوگرافی، فارماکالوجی، شاعری، کیلی گرافی، تھیالوجی، فقہ، تاریخ، عدلیہ اور اس طرح سے بہت سے میدانوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔حتیٰ کہ یورپی زبانوں میں اس وقت ان گنت عربی الفاظ اور سائنسی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں جو کہ جدید سائنس کے لئے مسلمانوں کی گئی خدمت کی زندہ یادگارہیں۔ اس کے علاوہ ایشاء اور یورپ کی لائبریریوں میں پڑی ہوئی کتابیں، کئی ممالک کے عجائب گھر، صدیوں پہلے تعمیر کی گئی مساجد اور محلات انسانیت کی تاریخ میں وقوع پذیر ہونیوالے اس مظہر کی آج بھی شہادت دے رہے ہیں۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
تاریخ پڑھنے والوں کو دھوکہ دینے کے لئے ترجمہ کے عمل کے دوران مسلمان علماء ک ایک کثیر تعداد کے ناموں کو بھی بدل دیا گیا، کہ یہ غیر مسلم یورپی لوگوں کے نام ہیں۔ جیسا کہ ابوالقاسم الزہراوی کو Albucasis کہا جاتا ہے۔ محمد ابن جابر ابن سینا البطانی کو Albetinius اور ابو علی ابن سینا کو Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔ cipher اور chiffre بالترتیب انگریزی اور فارسی کے الفاظ ہیں جو کہ عربی لفظ صفر (معنی:خالی) سے ماخوذ ہیں، ایک عدد کو بیان کرتے ہیں جو اگر کسی عدد کے دائیں جانب لگا دیا جائے تو اس عدد کی قیمت دس گنا ہو جاتی ہے۔ لفظ Alkali کیمسٹری میں استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے جس سے مراد ایسی شے ہے جو تیزاب کے ساتھ تعامل کرنے پر نمک دیتی ہے، یہ اصطلاح بھی عربی لفظ ’’القلی‘‘ سے لی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص غیر جانبدار ہو کر پوری ایمانداری سے تاریخ کا مطالعہ کرے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جدید سائنسی انقلاب مسلمان سائنسدانوں کے جذبہ تحقیق کی مرہون منت ہے۔ اگرچہ ہم میں سے اکثر جدید تہذیب پر کئے گئے اپنے اس احسان سے بے خبر ہیں مگر اس کے دئیے گئے تحائف ہماری وراثت کا حصہ ہیں۔ان مسلمان ریاضی دانوں کے بغیر تو جدید ترقی کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا جنہوں نے الجبرا تخلیق کیا اور وہ Algorithms بنائے جو جدید کمپیوٹرز کی بنیاد بنے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
No comments:
Post a Comment