Pages

Subscribe:

Labels

Sunday 5 February 2012

لا الٰہ الا اللہ کے تقاضے

لا الٰہ الا اللہ کے تقاضے
قمرالزمان مصطفوی
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہتما کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی باقی بتانِ آزری
لا الٰہ الا اللہ وہ کلمہ توحید ہے جو انسان کو غیر اللہ کی بندگی سے نکال کر اکیلے اللہ تعالیٰ کو معبودِ برحق تسلیم کرواتا ہے۔ یہ دین اسلام کا پہلا سبق ہے۔ اس کے اقرار کا مطلب یہ ہے کہ اب انسان کی ساری زندگی صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی (مکمل اطاعت) میں گزرے گی۔ اسکی نماز، اسکا روزہ، اسکے تمام معاملات، ہر فعل یہ گواہی دے گا کہ الٰہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اطاعت و بندگی صرف اسی عرشِ عظیم کے مالک کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ کوئی حاکم اور الٰہ نہیں ہے، اسکے دین کے خلاف ہر حکم ہر قانون پاؤں تلے روند دیے
جانے کے قابل ہے۔ لا الٰہ الا اللہ کا یہ پیغام اللہ کی بڑائی کے ساتھ دنیا کے باطل الٰہوں سے عداوت، دشمنی اور برٰات کا اعلان ہے۔ اس عہد کے لئے انبیا کرام علیہ سلام جیسی برگزیدہ شخصیات نے تکالیف برداشت کیں اور جب انہوں نے تلوار اٹھائی تو بھی صرف اسی مقصد کے لئے اٹھائی۔
کیا آج زبان سے لا الٰہ الا اللہ کہنے کے باوجود اطاعت انگریزی قانون کی نہیں کی جا رہی؟ قرآن و حدیث صرف گھر بیٹھ کر تلاوت کرنے کے لئے ہے یا مسجد میں جا کر لوگوں کو سنانے کے لئے یا مردے بخشوانے کے لئے، لیکن ملک میں قانون وہ نہیں اللہ رب العالمین نے نازل کیا۔ کون رب العالمین؟ وہ رب العالمین جس کے حکم سے زمین و آسمان اپنی جگہ قائم ہیں۔ جس کے حکم پر سورج طلوع ہوتا، چاند چمکتا، ستارے جگمگاتے ہیں۔ جس کے حکم پر بے آباد اور بنجر زمین پر پودے اگتے ہیں اور آسمان میں پرندے اڑتے ہیں۔ وہ رب العالمین جس کے حکم پر انسان کا دل دھڑکتا ہے اور خون پورے جسم میں دوران کرتا ہے۔ آنکھیں دنیا کی حسین چیزیں دیکھتی ہیں، کان خوبصورت آوازیں سنتا ہے۔ جب کائنات کا مالک وہی ہے تو اس کو الٰہ بھی ماننا پڑے گا۔ جب زمین اس کی ہے تو اس زمین پر قانون بھی اس کا چلے گا، جب ہمارا خالق وہ ہے تو زندگی بھی اسکے کہے کے مطابق گزارنی پڑے گی۔ ماننا پڑے گا کہ قانون سازی کرنا اسی کے لائق ہے، وہی انسانوں کے لئے حلال حرام، جائز نا جائز کے پیمانے مقرر کرتا ہے، صرف وہی ہے ہر حال میں جس کی اطاعت کرنی ہے اور محمدﷺ اس کی اطاعت کا ذریعہ ہیں۔
جن کو انگریز کا قانون ہو اَزبر ان سے
اور سب پوچھ مگر شرع کے احکام نہ پوچھ
ریڈیو میں بھی جو قرآن کی تلاوت نہ سنیں
اُن مسلمانوں کی اولاد کا اسلام نہ پوچھ
کیا آج ہمارے ملک میں اس رب ذوالجلال کا قانون نافذ ہے؟ کیا ہمارے اس ملک کے اپنے حلال و حرام نہیں ہیں؟ جس کی پابندی عدالت بھی کرتی ہے اور وکلاء بھی اس کا واسطہ دے دے کر لوگوں کو حق دلواتے ہیں۔ پولیس اور فوج بھی اسی قانون کی محافظ ہے اور اسمبلی کے اراکین بھی اسی کے تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں۔ کیا ہم نے یہ ملک حاصل کرنے کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی اس لئے دی تھی کہ ہم اس ملک میں اپنے ہی دشمنوں کا قانون نافز کریں؟ اللہ تعالیٰ کو رب ماننا اور اس کی نازل کردہ شریعت کو قانون نہ سمجھنا بلکہ صرف مسجدوں تک محدود رکھنا، قانون کے لئے کافر کا دروازہ کھٹکٹانا، یہی تو اصل شرک ہے جو اس قوم سے پچھلے 64برس سے ملکی ترقی کے نام پر کروایا جا رہا ہے۔ نبی رحمت ﷺ کے لائے ہوئے قانون کا پابند نہ ہونا اللہ کے نزدیک اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ اپنی قسم اٹھا کر ایسے لوگوں کے ایمان کی نفی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
’’ نہیں (اے محمدﷺ) آپ کے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں یہ آپﷺ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی تک محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔ ‘‘ (النساء : 65)

اے ساقی گل فام بُرا ہو ترا تُو نے
باتوں میں لبھا کر ہمیں وہ جام پلایا
یہ حال ہے سو سال غلامی میں بسر کی
اور ہوش ہمیں اب بھی مکمل نہیں آیا

No comments:

Post a Comment