پاکستانی لڑکی کے بدلے فرانس نے دس روبوٹس فراہم کر دئیے
LAST MODIFIED FEBRUARY 21, 2012 10:58 by ahwaal.com
دس سال قبل تعلیم حاصل کرنے فرانس جانے والے پاکستانی عبدالرزاق نے وہاں ایک فرانسیسی خاتون الگریل سے شادی کرلی تھی جس سے اس کی ایک بیٹی آمنہ پیدا ہوئی۔ گذشتہ پانچ برس سے عبدالرزاق اور آمنہ پاکستان میں زندگی گزار رہے تھے مگر اب فرانس حکومت اور اس کی ماں الگریل کا دبائو تھا کہ آمنہ کو اس کے حوالے کیا جائے۔ جمعے کے روز ایک عدالتی فیصلے کے تحت پاکستانی کی آمنہ نامی گیارہ سالہ لڑکی کو حکومتی دبائو پر اس کی فرانسیسی عیسائی ماں الگریل کے ساتھ واپس فرانس بھیج دیا گیا، اس دوران آمنہ مسلسل روتی رہی اور واپس نہ جانے کی دہائی دیتی رہی مگر عدالت کا کہنا تھا کہ وہ جذباتی نہیں قانونی فیصلے کرتی ہے۔ آمنہ کے باپ نے لاہور ہائیکورٹ میں دوبارہ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے فوری بعدفرانسیسی حکومت نے بارودی مواد کو ناکارہ بنانے کے لیے پاکستان کو دس روبوٹس فراہم کردیئے ہیں جن میں سے پانچ روبوٹس خیبر پختونخوا کودیئے جائیں گے۔ذرائع کے مطابق جدید روبوٹس کی مدد سے دہشت گردی میں استعمال ہونے والے باروی مواد کا پتہ چلانے اور ناکارہ بنانے میں مدد ملے گی۔ اور پاکستان کافی عرصے یہ روبورٹس حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔پاکستان کو ملنے والے دس میں سے پانچ روبوٹس خیبر پختونخوا کو فراہم کئے جائیں گے۔ ان روبوٹس کو استعمال کرنے کے لئے پہلے مرحلے میں بیس اہلکاروں کو تربیت کے لیے لاہور بھی بھیجا گیاہے۔
اس حوالے جو تفصیلا احوال کو حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے گیارہ سالہ آمنہ کو اس کی عیسائی ماں کے حوالے کئے جانے کے فیصلے کے بعد اسے اس کی ماں کے ہمراہ فرانس بھیج دیا گیا ہے۔ دوسری جانب آمنہ کے وکیل نے انکشاف کیا ہے کہ اس معاملے پر حکومت کی جانب سے شدید دبائو تھا۔ آمنہ کے والد نے اس کی فرانسیسی ماں الگریل کو 2005ء میں طلاق دے دی تھی کیونکہ وہ عیسائی ہو گئی تھی اورآمنہ کو لے کر پاکستان آ گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں عدالت کے روبرو پیش ہو کر آمنہ نے کہا تھا کہ اس نے آج تک اپنی ماں کو نہیں دیکھا ہے اور وہ نہیں جانتی کہ اس کی ماں کون ہے. اگر اس کی فرانسیسی ماں اسلام قبول کر لے تو اسے اس کے ہمراہ جانے میں کوئی اعتراض نہیں۔ واضح رہے کہ فرانس کے سفارتخانے کی جانب سے 12 جولائی 2010ء کو آئی جی پنجاب کے نام ایک خط لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ صدر زرداری کے دورہ فرانس کے دوران فرانسیسی صدر سرکوزی نے اس معاملہ کو ان کے سامنے اٹھایا تھا۔ صدر زرداری نے اس معاملے کو حل کرنے کےلئے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے سپرد کیا تھا۔ اس سے قبل وزیر داخلہ رحمن ملک کی 2009ء میں اپنے فرانسیسی ہم منصب کےساتھ ملاقات میں بھی اس ایشو پر خصوصی بات چیت کی گئی تھی۔ سفارتخانے کا کہنا تھا کہ صدر زرداری نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آمنہ کو واپس فرانس بھیج دیں گے اور اس کی عیسائی الگریل کے حوالے کردیں گے لہذا اس وعدےپر عمل کیا جائے۔ دوسری جانب آمنہ کا والد عبدالرزاق کا یہ کہنا تھا کہ ایک مسلمان بچی کو عیسائی ماں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا اور ویسے بھی وہ طلاق کے بعد اپنے دوسری بوائے فرینڈ کے ساتھ رہ رہی تھی اور اسے بیٹی کا کوئی خیال نہ تھا اب جب کہ اس کا بوائے فرینڈ اسے چھوڑ کر جا چکا ہے تو وہ اپنی تنہائی دور کرنے کے لئے آمنہ کو واپس لے جانا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں
پنجاب کے صوبائی وزیر چودھری عبدالغفور کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں انہوں نے جسٹس افتخار محمد چودھری سے استدعا کی تھی کہ مسلمان بچی کو اس کی عیسائی ماں کے ہمراہ فرانس جانے سے روکا جائے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں بچی کو عیسائی بنا دیا جائے گا جو کہ اسلام کے عین خلاف ہے۔
اس سلسلے میں جو مزید تفصیلات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق آمنہ کا والد بھی فرانسیسی ہے،اس نے یہ شادی دس سال قبل کی تھی اور اس وقت جس فرانسیسی لڑکی الگریل سے اس نے شادی کی تھی وہ مسلمان ہو گئی تھی۔پھر 2004 میں ان دونوں کے درمیان گھریلو جھگڑے شروع ہو گئے جیسا کہ یورپ میں عام طور پر ہوتا ہے اور پھر اس فرانسیسی خاتون الگریل نے اپنے شوہر کو طلاق دے دی، فرانس میں عورت بھی طلاق دے سکتی ہے قانونی طور پرشوہر کو طلاق دینے کے بعد وہ فرانسیسی خاتون دوبارہ سے عیسائی ہوگئی اور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی اور اس نے اپنی بیٹی کو بھی ساتھ رکھنے سے انکار کردیا کیوںکہ اس کا بوائے فرینڈ بچے نہیں چاہتا تھا۔
پھر 2005 میں اس بچی کا والد اسے لے کر پاکستان آگیا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ منڈی بہاوالدین میں رہنا شروع ہو گیا اور بیٹی کی اسلامی تربیت شروع کردی۔ پھر 2009 میں اس عیسائی خاتون الگریل کا بوائے فرینڈ بھی اسے چھوڑ کر بھاگ گیا کیونکہ وہ کافی عمر رسیدہ ہوگئی تھی اور بوائے فرینڈ نے ایک اور جوان گرل فرینڈ دھونڈ لی تھی۔جب الگریل کا بوائے فرینڈ بھا گ گیا تو وہ تنہا ہوگئی اور اب اسے بیٹی کی یاد نے ستایا۔ پہلے اس نے ایک فرانسیسی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ اس کا سابق پاکستانی شوہر بیٹی کو اغوا کر کے پاکستان لے گیا ہےاسے واپس لایا جائے۔ فرانسیسی عدالت نے فرانسیسی وزارت خارجہ کو حکم دیا کہ لڑکی کو فوری طور پرپاکستان سے واپس فرانس لایا جائے۔ پھر 2010میں الگریل پاکستان آ گئی اور شور مچا دیا کہ اسے اس کی بیٹی واپس دی جائے۔ فرانس نے بھی پاکستان پر دبائو ڈالا کہ لڑکی واپس کردو۔ جب کہ لڑکی کا کہنا تھاکہ اس نے پانچ سال سے اپنی ماں کو نہیں دیکھا اب اچانک یہ کہاں سے نکل آئی ہے۔ اس وقت لڑکی کی عمر گیارہ برس ہے اور وہ اسلامی لباس پہنتی ہے جب کہ اس کی والدہ نیم برہنہ گھومتی ہے اسی لئے وہ لڑکی ماں کے ساتھ جانےکو تیار نہیں اور اپی دادی اور باپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ مگر لاہور ہائی کورٹ میں روتی چلاتے آمنہ کو زبردستی اس کی عیسائی ماں کے حوالے کردیا گیا جو اسے فوری طور پر فرانسیسی سفارتخانے لے گئی اور پھر شام کو اسے فرانس جانے والے جہاز پر سوار کرادیا گیا۔ اس کے ٹھیک دو روز بعد، فرانس نے پاکستان کو بم تلاش کرنے والے جدید ترین روبوٹس فراہم کردئے۔فرق صرف اتنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کو چھپ کرامریکہ کےحوالے کیا گیا اور بدلے میں جو ملا کسی کو معلوم نہیں۔ جب کہ اس لڑکی آمنہ کو سب کے سامنے فرانس کے حوالے کیا گیا اور بدلے میں روبوٹس ملے۔
اس حوالے جو تفصیلا احوال کو حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے گیارہ سالہ آمنہ کو اس کی عیسائی ماں کے حوالے کئے جانے کے فیصلے کے بعد اسے اس کی ماں کے ہمراہ فرانس بھیج دیا گیا ہے۔ دوسری جانب آمنہ کے وکیل نے انکشاف کیا ہے کہ اس معاملے پر حکومت کی جانب سے شدید دبائو تھا۔ آمنہ کے والد نے اس کی فرانسیسی ماں الگریل کو 2005ء میں طلاق دے دی تھی کیونکہ وہ عیسائی ہو گئی تھی اورآمنہ کو لے کر پاکستان آ گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں عدالت کے روبرو پیش ہو کر آمنہ نے کہا تھا کہ اس نے آج تک اپنی ماں کو نہیں دیکھا ہے اور وہ نہیں جانتی کہ اس کی ماں کون ہے. اگر اس کی فرانسیسی ماں اسلام قبول کر لے تو اسے اس کے ہمراہ جانے میں کوئی اعتراض نہیں۔ واضح رہے کہ فرانس کے سفارتخانے کی جانب سے 12 جولائی 2010ء کو آئی جی پنجاب کے نام ایک خط لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ صدر زرداری کے دورہ فرانس کے دوران فرانسیسی صدر سرکوزی نے اس معاملہ کو ان کے سامنے اٹھایا تھا۔ صدر زرداری نے اس معاملے کو حل کرنے کےلئے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے سپرد کیا تھا۔ اس سے قبل وزیر داخلہ رحمن ملک کی 2009ء میں اپنے فرانسیسی ہم منصب کےساتھ ملاقات میں بھی اس ایشو پر خصوصی بات چیت کی گئی تھی۔ سفارتخانے کا کہنا تھا کہ صدر زرداری نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آمنہ کو واپس فرانس بھیج دیں گے اور اس کی عیسائی الگریل کے حوالے کردیں گے لہذا اس وعدےپر عمل کیا جائے۔ دوسری جانب آمنہ کا والد عبدالرزاق کا یہ کہنا تھا کہ ایک مسلمان بچی کو عیسائی ماں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا اور ویسے بھی وہ طلاق کے بعد اپنے دوسری بوائے فرینڈ کے ساتھ رہ رہی تھی اور اسے بیٹی کا کوئی خیال نہ تھا اب جب کہ اس کا بوائے فرینڈ اسے چھوڑ کر جا چکا ہے تو وہ اپنی تنہائی دور کرنے کے لئے آمنہ کو واپس لے جانا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں
پنجاب کے صوبائی وزیر چودھری عبدالغفور کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں انہوں نے جسٹس افتخار محمد چودھری سے استدعا کی تھی کہ مسلمان بچی کو اس کی عیسائی ماں کے ہمراہ فرانس جانے سے روکا جائے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں بچی کو عیسائی بنا دیا جائے گا جو کہ اسلام کے عین خلاف ہے۔
اس سلسلے میں جو مزید تفصیلات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق آمنہ کا والد بھی فرانسیسی ہے،اس نے یہ شادی دس سال قبل کی تھی اور اس وقت جس فرانسیسی لڑکی الگریل سے اس نے شادی کی تھی وہ مسلمان ہو گئی تھی۔پھر 2004 میں ان دونوں کے درمیان گھریلو جھگڑے شروع ہو گئے جیسا کہ یورپ میں عام طور پر ہوتا ہے اور پھر اس فرانسیسی خاتون الگریل نے اپنے شوہر کو طلاق دے دی، فرانس میں عورت بھی طلاق دے سکتی ہے قانونی طور پرشوہر کو طلاق دینے کے بعد وہ فرانسیسی خاتون دوبارہ سے عیسائی ہوگئی اور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی اور اس نے اپنی بیٹی کو بھی ساتھ رکھنے سے انکار کردیا کیوںکہ اس کا بوائے فرینڈ بچے نہیں چاہتا تھا۔
پھر 2005 میں اس بچی کا والد اسے لے کر پاکستان آگیا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ منڈی بہاوالدین میں رہنا شروع ہو گیا اور بیٹی کی اسلامی تربیت شروع کردی۔ پھر 2009 میں اس عیسائی خاتون الگریل کا بوائے فرینڈ بھی اسے چھوڑ کر بھاگ گیا کیونکہ وہ کافی عمر رسیدہ ہوگئی تھی اور بوائے فرینڈ نے ایک اور جوان گرل فرینڈ دھونڈ لی تھی۔جب الگریل کا بوائے فرینڈ بھا گ گیا تو وہ تنہا ہوگئی اور اب اسے بیٹی کی یاد نے ستایا۔ پہلے اس نے ایک فرانسیسی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ اس کا سابق پاکستانی شوہر بیٹی کو اغوا کر کے پاکستان لے گیا ہےاسے واپس لایا جائے۔ فرانسیسی عدالت نے فرانسیسی وزارت خارجہ کو حکم دیا کہ لڑکی کو فوری طور پرپاکستان سے واپس فرانس لایا جائے۔ پھر 2010میں الگریل پاکستان آ گئی اور شور مچا دیا کہ اسے اس کی بیٹی واپس دی جائے۔ فرانس نے بھی پاکستان پر دبائو ڈالا کہ لڑکی واپس کردو۔ جب کہ لڑکی کا کہنا تھاکہ اس نے پانچ سال سے اپنی ماں کو نہیں دیکھا اب اچانک یہ کہاں سے نکل آئی ہے۔ اس وقت لڑکی کی عمر گیارہ برس ہے اور وہ اسلامی لباس پہنتی ہے جب کہ اس کی والدہ نیم برہنہ گھومتی ہے اسی لئے وہ لڑکی ماں کے ساتھ جانےکو تیار نہیں اور اپی دادی اور باپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ مگر لاہور ہائی کورٹ میں روتی چلاتے آمنہ کو زبردستی اس کی عیسائی ماں کے حوالے کردیا گیا جو اسے فوری طور پر فرانسیسی سفارتخانے لے گئی اور پھر شام کو اسے فرانس جانے والے جہاز پر سوار کرادیا گیا۔ اس کے ٹھیک دو روز بعد، فرانس نے پاکستان کو بم تلاش کرنے والے جدید ترین روبوٹس فراہم کردئے۔فرق صرف اتنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کو چھپ کرامریکہ کےحوالے کیا گیا اور بدلے میں جو ملا کسی کو معلوم نہیں۔ جب کہ اس لڑکی آمنہ کو سب کے سامنے فرانس کے حوالے کیا گیا اور بدلے میں روبوٹس ملے۔
No comments:
Post a Comment