Pages

Subscribe:

Labels

Sunday 5 February 2012

جمہوریت کی شرعی حیثیت

جمہوریت کی شرعی حیثیت
قمرالزمان

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی


ہرشخص کی یہ آوازہے کہ’’ بس جمہوریت ‘‘اور’’ بس جمہوریت‘‘ ہونی چاہیے۔ لیکن جمہوریت کی حقیقت کیا ہے یہ کوئی نہیں جاننا چاہتا ۔ یہ آئی کہاں سے اور اس کے اثرات کیا نکلیں گے اس پر غور کرنے کے لئے کسی کے پاس فرصت نہیں ہے۔جمہوری نظام اسلامی خلافت کے نظام کے جیسا ہے یا شریعت کی ضد ہے اس پر کبھی ہم نے سوچنا ہی نہیں چاہا۔ کیونکہ اسلام تو ہماری بنیادی ترجیحات میں شاید شامل ہی نہیں رہا۔کیا اسلام صرف ایک مذہب ہے؟ اور بس نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ادا کر دینے کا نام ہے؟ یا اسلام اس زمین پر پایا جانے والا واحد مذہب ہے جو پورا دین ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں انسانیت کو موجودہ دور کے لحاظ سے رہنمائی دیتا ہے؟
:ابراہم لنکن نے جمہوریت کو کچھ اس انداز میں بیان کیا
’’لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے، لوگوں کے لئے‘‘
:اس کو اگر ہم اپنی زبان میں بیان کرنا چاہیں تو یہی تعریف کچھ یوں بن جاتی ہے
’’لوگوں کا ڈنڈا، لوگوں کے ہاتھ سے ، لوگوں پر برسنا‘‘
:اقبال نے بھی جمہوریت کو بہت خوب بیان کیاہے
اس راز کو اِک مرد فرنگی نے کیا فا ش ہر                     چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں                 بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے


مختصر یہ کہ جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو بظاہر انکی مرضی کی قانون سازی کا اختیار دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک نماءندہ انتخابات کے لئے کسی علاقے سے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ وہ ایک بندہ جس نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ان سب لوگوں کی رائے اور نظریہ پارلیمنٹ میں لے جائے گا۔ ادھر ایک بندہ بات کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سب لوگ بات کررہے ہیں کیونکہ ان سب لوگوں نے اس کو ووٹ دیا ہے۔ اب جب بہت سارے پارلیمنٹ میں آگئے تو یہی پورے ملک اور پوری قوم کی رائے لائے۔جب یہ تین سو لوگ بولتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پورا ملک بولتا ہے۔ تو یہ تین سو لوگ ملکی نظام چلانے کے لئے قانون بناتے ہیں۔ پھر اس پر ہر رکن دستخط کرتا ہے۔ 
امت مسلمہ نے خلافتِ راشدہ کے مبارک دور کے بعد تین بڑی خلافتوں؛ خلافتِ امویہ، خلافتِ عباسیہ اور خلافتِ عثمانیہ کا نظارہ کیا۔ خلافت کے اِس شجرِ سایہ دار تلے جہاں ایک طرف یہ امت اپنے دین پر بلا روک ٹوک عامل رہی، وہیں اس کو کفارِ عالم پر غلبہ اور عروج بھی حاصل رہا۔ امت کا دین بھی محفوظ رہا اور اس کی جان، مال اور عزت بھی محفوظ۔اگرچہ بعض مراحل میں خلافت کے اس ادارے میں کمزوریاں بھی دیکھنے کو ملیں، لیکن کمزوریوں کے باوجود بھی فقط اس کا وجود ہی مسلمانوں کے لئے بہت بڑے سہارے کا موجب رہا اور وہ صدیوں تک ایک مرکز پر ایک قیادت تلے متحد رہے۔بیسوں صدی کے آغاز میں جب دشمنان اسلام کی کوششوں سے خلافت عثمانیہ کا سقوط ہواتو پورے عالم اسلام پر غلامی کے بادل چھا گئے۔
دشمنان اسلام کے لئے یہ دور بڑی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ جس نظام خلافت کو وہ صدیوں کی کوششوں کے بعد توڑنے میں کامیاب ہوئے اس کے دوبارہ قیام کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے ایک متبادل کھلونے کی ضرورت تھی جو کہ مسلمانوں کو بہلانے کے لئے ان کے ہاتھ میں دیا جائے اوران کی توجہ خلافت کے دوبارہ قیام کی طرف نہ جاسکے۔بس کچھ ایسا کر دیا جائے کہ مسلمان ساری عمر بس اپنے ہی مسائل میں الجھے رہیں۔ لہذٰا مسلمانوں کے سامنے جمہوریت کو ایک سہانے خواب کی شکل میں پیش کیا گیا۔ اور اس کے مدمقابل آمریت کا بھیانک منظررکھاگیا۔بہرحال وہ اس مقصد میں کامیاب ہوگئے۔اس کے بعد سے آج تک مسلمان کسی پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہو سکے۔ حتیٰ کہ بیت المقدس بھی ہاتھ سے چلی گئی۔لیکن اس امت کی آنکھیں نہیں کھل سکیں۔ظاہر ہے کہ جب مرکز ہی ایک نہ رہا تو سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔
جمہوریت صرف الیکشن لڑنے، ووٹ ڈالنے اور اپنے پسندیدہ حکمران چننے کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ایک اایساکفر نظام ہے جس کے ذریعے اانسانوں کو قانون سازی کا اختیار دیکر انہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’حکم دینا تو صرف اللہ کے لئے ہے‘‘ (سورہ یوسف ۰۴)
’’ اور جو کوئی بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں‘‘۔
(المائدہ ۴۴)
’’ اور جو کوئی بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵۴)
’’ اور جو کوئی بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔ (المائدہ ۷۴)
جبکہ جمہوریت میں پارلیمنٹ کو اس بات کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کی اکثریت کی بنیاد پر جس چیز کو چاہے حلال قرار دے دے اور جسے چاہے حرام ٹھہرا دے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی سر زمین پر دیکھ سکتے ہیں کہ سود، انشورنس، سٹاک مارکیٹ اور اس جیسے بہت سے غیر اسلامی کام اسمبلیوں کے ذریعے جائز کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ اسلام میں قانون بنانے کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔


شریعت میں کثرتِ رائے معیار حق و باطل نہیں
دین اسلام میں انسانوں کی اکثریت کا کسی ایک جانب آجانا حق و باطل کا فیصلہ کرنے کے لئے بنیادی حیثیت نہیں رکھتا۔ اسی لئے اکثریت کو قرآن حکیم نے حد درجہ غیربنیاد قرار دیا ہے اور دین و ملک اور دیانت و سیاست کے تمام ہی دائروں میں اکثریت کی بے وقعتی اور بے اعتباری کھلے الفاظ میں بیان کی ہے۔ قرآن حکیم میں ایک سے زائد جگہوں پہ ارشاد ہے:
’’ اور اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے گو آپ کا کیسا ہی جی چاہتا ہو‘‘۔ (سورہ یوسف ۳۰۱)
’’لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (سورہ ھود ۷۱۱)
’’بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں سمجھتے‘‘۔ (سورہ عنکبوت ۳۶)
’’ اور لیکن اکثرآدمی علم نہیں رکھتے‘‘۔ (سورہ الاعراف ۷۸۱)
’’لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں‘‘۔ (سورہ انعام ۱۱۱)
’’ اور ان میں اکثر آدمی حق کو نہیں جانتے بلکہ اس سے منہ پھیرنے والے ہیں‘‘۔ (سورہ الانبیاء ۴۲)
’’ اور اکثر لوگوں میں ہم نے وفائے عہد نہ دیکھی، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں‘‘۔ 
(سورہ الاعراف ۲۰۱)
’’ اور ان سے پہلے بھی اگلے لوگوں میں اکثر گمراہ ہو چکے ہیں‘‘۔ (سورہ الصافات ۱۷)
’’ ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہو چکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے‘‘۔ (سورہ یٰس ۷)
’’ اور بہت سے ایسے ہیں جن پر عذاب ثابت ہو گیا ہے‘‘۔ (سورہ الحج ۸۱)
’’ بارہا چھوٹی چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی جماعتوں پر خدا کے حکم سے غالب آگئیں‘‘۔ (سورہ البقرہ ۹۴۲)
’’اللہ تعالیٰ نے بے شمار مواقع پر تمہاری مدد کی اور حنین کے دن بھی کی، جبکہ تمہیں تمہاری کثرت نے دھوکے میں ڈال دیا تھا، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی فراخی کے تم پر تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے‘‘۔ (سورہ التوبہ ۵۲)
’’ آپ فرما دیجیے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں، گو تمہیں ناپاک کی کثرت تعجب میں ڈالتی ہو‘‘۔
(سورہ مائدہ ۰۰۱)
’’ اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں، اور وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور اٹکل پچو لڑاتے ہیں‘‘۔ (سورہ انعام ۶۱۱)
پس قرآن نے دنیا کی اکثریت سے ایمان کی نفی کی، عقل کی نفی کی، علم کی نفی کی، محبت حق کی نفی کی، تحقیق کی نفی کی، بیداری اور فہم کی نفی کی، ایفائے عہد کی نفی کی، ہدایت کی نفی کی، ثواب آخرت اور جنتی ہونیکی نفی کی، جہاد میں اکثریت کے گھمنڈ پر فتح و نصرت کی نفی کی، اور قابل استعمال اشیاء میں اکثریت کے معیار پر حلال و طیب ہونیکی نفی کی۔ گویا واضح کر دیا کہ دنیا میں ہر دائرے کی اکثریت معیار حق نہیں ہے۔ کیونکہ امر واقع یہ ہے کہ دنیا کی اکثریت حماقت، جہالت، کراہت حق، اٹکل کی پیروی، غفلت، بد عہدی، ضلالت، عذاب اخروی، جہنم رسیدگی اور شکست خوردگی وغیرہ کا شکار ہے۔ چنانچہ محض عددی اکثریت اسلام کے مطابق کہاں قابل وقعت قرار پاسکتی تھی کہ اسے حقوق کے لئے فیصلہ کن تسلیم کیا جاتا۔


الیکشن یا ووٹنگ کی شرعی حیثیت
جمہوریت پر اسلام کا لیبل لگانے کے لئے جمہوریت کے حامی جلدی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی اسلام میں جو کام مجلس شوریٰ انجام دیتی ہے اور یہی کام جمہوری نظام میں پارلیمنٹ انجام دیتی ہے، لہذا جموریت بھی عین اسلامی طریق پر نظام حکومت ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بنا سوچے سمجھے ہی اپنے ہر کام کو اسلام کا لیبل لگانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں نہ کہ اسلام سے اپنے ہر کام کے متعلق رہنمائی لینا چاہتے ہیں۔ اگر تھوڑی سی عقل کا استعمال کیا جائے توجمہوریت اور اسلامی نظام خلافت میں اس کے علاوہ اور کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی، اور اگر تھوڑا سا عقل کا استعمال اور کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مماثلت بھی سو فیصد نہیں ہے۔ اسلام میں مشورہ لینے کے لئے کچھ شرائط بھی ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہے کہ شراب کے حلال اور حرام ہونے سے متعلق بھی مشورہ کیا جائے گا۔ جب اسلام میں شراب ہے ہی حرام توکثرت رائے اسے حلال قرار نہیں دے سکتی ہے۔ اسی طرح اسلام میں جس چیز کی حرمت واضح کر دی گئی اس کے نافذ العمل ہونے یا نہ ہونے کا معیار کثرت رائے نہیں ہے۔ لہذٰا اس کے لئے ووٹنگ نہیں کی جائے گی۔جہاں تک تعلق ہے الیکشن یا ووٹنگ کے ذریعے نمائندہ منتخب کرنے کا، تو یہ محض ایک اسلوب ہے جس سے کسی شخص کو کسی خاص ذمہ داری کے لئے منتخب کیا جاتا ہے جیسا کہ سفر کے لئے اک نمائندہ یعنی امیر منتخب کرنا، یا مجلس شوری کا نمائندہ منتخب کرنا جس کی شریعت میں اجازت ہے مگر شریعت کی رو سے کثرت رائے صرف ایک صورت میں معتبر ہے، جب مسئلے کے دہ پہلوہوں اور دونوں مباح ہوں۔ ایسے میں کثرت رائے کے ذریعے کسی ایک پہلو کو ترجیح دی جا سکتی ہے، مگر اس کے لئے بھی کچھ اضافی شرائط ہیں مثال کے طور پر یہ کہ:
*یہ اکثریت دیانتدار لوگوں کی ہونی چاہیے، ورنہ خائنوں اور فاسقوں کی اکثریت کے مقابلے میں بلا شبہ ان افراد کی اقلیت قابل ترجیح ہوگی جن کی دیانت و امانت مسلم اور جن کا فہم و ذوقِ سلیم معروف ہو۔
* ایک پہلو کو دوسرے پہلو پر ترجیح دینے سے منصوص احکامات میں خلل نہ پڑے۔
* اکثریت جس پہلو کو ترجیح دے اس پر اتنا زور بھی نہ دیا جائے کہ جانب مخالف قابل ملامت قرار پا جائے۔ یعنی اگر کسی مباح کام کے متعلق ( جس کے کرنے یا نہ کرنے کا شریعت نے اختیار دیا ہے) کثرت رائے سے اس کا کرنا ترجیح پائے تو اس کام کے ترک کو مکروع یا ممنوع نہ ٹھہرایا جائے، اور اسی طرح اگر اس کام کو ترک کرنا راجح قرار پائے اس کام کا کرنا قابل نکیر و ملامت نہ سمجھا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو وہ کام مباح نہیں رہے گا بلکہ اباحت کی حدود سے نکل کر واجب یا حرام کی حدود میں آجائے گا اور کسی کام کو واجب و حرام بنانا اللہ کے سوا کسی کا حق نہیں ہے۔ پس اگر ایسا کیا گیا تو یہ بدعت کہلائے گی جس کی مذمت سے شریعت بھری پڑی ہے۔
 اکثریت بھی عوام کی نہیں بلکہ ان اہل علم و فضل کی معتبر ہے جو ذوقِ تشریع اور حکمت شریعت سے بہرہ ور ہوں، ورنہ عوام الناس کی اکثریت اگر کلیتا بھی کسی مسئلے پر متفق ہو جائے تو اسکی کوئی وقعت نہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اکثریت صرف اسی صورت معتبر ہے جب مسئلہ مباحات میں سے ہو اور اکثریت عوام کی بجائے اہل علم و فضل کی ہو اور وہ اکثریت بھی اپنی حدود میں رہے۔ مثال کے طور پر ایک عمارت کی تعمیر میں کونسا اور کتنا میٹریل استعمال ہو گا اسکا مشورہ سول انجنئیر سے ہو گا نہ کہ نیورو سرجن سے جو کہ بلا شبہ اپنے شعبہ میں مہارت رکھتا ہے۔پس منصوصات یعنی فرائض و واجبات، سنن و مستحبات اور مکروہات و محرمات وغیرہ میں کثرت رائے کا کچھ اعتبار نہیں۔ یوں یہ دائرہ کار بہت ہی تنگ ہو جاتا ہے۔الیکشن اور ووٹنگ بذات خود حرام عمل نہیں لیکن جب اس عمل کو جمہوری نظام کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے تو یہ بھی حرام ہو جاتا ہے۔ یہ جمہوریت کا ایک حصہ ہے نہ کہ پوری جمہوریت۔


پارلیمنٹ
پارلیمنٹ جمہوریت کا مرکزی اور بنیادی ادارہ ہے اور قانون سازی کی ساری قوت اس کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے ممبران کو قانون سازکہا جاتا ہے۔ جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جو دین اور دنیا کی علیحدگی یعنی سیکولرزم کی فکر پر قائم ہے اور اسکی رو سے عوام کے منتخب نمائندوں کی مجلس قانون ساز یا پارلیمنٹ کا وجود لازم ہے جو اس جمہوری نظام حکومت کی روح رواں ہے۔
پارلیمنٹ کے دو کام ہیں:
۱۔ عوام کی نفسانی خواہشات کے مطابق قانون سازی
۲۔ حکومت کی تشکیل
جمہوری نظام میں لوگوں کو اپنی خواہشات کے مطابق حکومت کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ جمہوریت میں اس کا عمل ثبوت یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی نمائندہ پارلیمنٹ اور سینٹ کو اختیار ہے کہ وہ اکثریت کی بنا پر کسی بھی نوعیت کا قانون بنا سکتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’ کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا‘‘۔ (الاحزاب)


اسلام کی رو سے وہ نظام جس پر انسان کو چلنا چاہیئے اسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے وضع فرما دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ پر اس نظام کو شریعت کی صورت میں معبوث فرمایا ہے اور آپﷺ نے اسے انسانوں تک پہنچا دیا ہے۔ اب انسان کے لئے حتمی و لازمی ہے کہ وہ اعمال کی بجا آوری اللہ تعالیٰ کے امرو نہی کے مطابق کرے۔ گویا انسان کو شریعت سازی یا قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں۔ اور یہی وہ بنیادی فرق ہے کہ جس کی وجہ سے جمہوریت جو کہ انسان کا بنایا ہوا نظام ہے اس میں اور اسلامی نظام حکومت میں کوئی مطابقت نہیں۔ پس جمہوریت ہر شکل میں خواہ وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی، کفر نظام ہی ہے، کیونکہ یہ لوگوں کو قانون سازی کا اختیار دیتی ہے اور اس کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ اسی لئے جمہوریت کو اختیار کرنا، اسے تقویت دینا اس میں حصہ لینا حرام ہے۔


No comments:

Post a Comment