اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ (جب وہ گھر سے باہر نکلا کریں تو) اپنے (چہروں) پر چادر لٹکا لیا کریں ۔ ( اس طرح کہ چہرہ مکمل طور پر چھپ جائے بس آنکھ کھلی رہے تاکہ رستہ نظر آسکی) اس طرح بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی (کہ یہ مسلمان عورتیں ہیں) تو کوئی ان کو تنگ نہیں کرے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
القرآن سورہ احزاب آیت ۹۵
دنیا میں 4 ممالک ایسے ہیں جہاں پر سکول ، یونیورسٹیوں اور سرکاری عمارات میں حجاب پہننے پر مکمل پابندی ہے۔ ان ممالک میں فرانس بھی شامل ہے۔ اب تک صرف 2ایسے مسلم ممالک (تیونس اور ترکی) ہیں جو سکولوں ، یونیورسٹیوں اور سرکاری عمارات میں حجاب پہننے پر مکمل طور پر پابندی لگا چکے ہیں۔ جبکہ سائریا میں جولائی2010 ء سے یونیورسٹیوں میں چہرے کے نقاب پر پابندی ہے۔ کچھ دوسری ریاستوں جیسا کہ موروکو میں حجاب پہننے والی عورتوں کے لئے کچھ پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔
حجاب پر اصل جھگڑا اس وقت بھڑکا تھا جب اکتوبر1989ء میں شمالی فرانس کے ایک بہت بڑے قصبے کرئیل میں واقع ایک مڈل سکول میں 3 طالبات کو کلاس میں حجاب اتارنے سے انکار کرنے کے پر سکول سے نکال دیا گیا۔ جبکہ جنوری 1990ء میں نویون میں پیسٹر مڈل سکول سے لڑکیوں کو نکال دیا گیا۔ اکتوبر1994ء میں سینٹ ایگزیپر ی ہائی سکول کے طلباء نے کلاس میں حجاب پہننے کے حق میں احتجاج کیا۔ نومبر میں اسی سکول اور شمالی فرانس کے ایک شہر لی لے کے ایک سکول کی 24 نقاب کرنے والی طالبات کو سکول سے نکال دیا گیا۔ 1994ء سی2003ء کے درمیان 100 طالبات کو کلاس میں سکارف پہننے کی وجہ سے سکول سے نکال دیا گیا۔
تعلیمی شعبہ سے تعلق رکھنے والی فرانسیسی اکثریت نے عام طور پر نقاب کی مخالفت کی۔ سال 2003 کے آخری 4ماہ میں کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق فرانسیسی اکثریت نے سکولوں میں نقاب پر پابندی لگائی جانے کی حمایت کی۔ 2010ء میں فرانس میں ایک عوامی مسئلہ بیدار ہوااور فرانس نے ایک قانون پاس کر دیا جس کے مطابق پبلک میں برقعہ اور نقاب پہننے پر پابندی لگا دی گئی اور کہا گیا کہ اپریل 2011ء میں یہ قانون مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے گا۔
اپریل 2011ء بروز پیر کی صبح فرانس میں برقعہ پر مکمل طور پر پابندی لگا دی گئی۔ برقعہ پر پابندی کے قانون کے خلاف کچھ لوگوں نے اکٹھے ہو کر احتجاج کیا جن میں 2 ایسی خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے برقعہ پہنا ہو اتھا تو ان خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ احتجاج میں شامل مردوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ فرانس میں جو عورت برقعہ پہنے ہوئے یا نقاب کیے ہوئے نظر آئے گی اسے50یورو تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ اور جو مرد اپنی بیویوں اور بچیوں کو برقعہ پہننے یا نقاب کرنے پر مجبور کریں گے انہیں بھی سخت سزا ملے گی۔ ایسے مردوں کو 30ہزار سے 60 ہزار یورو تک جرمانہ ہو سکتا ہے اور ایک سال یا اس سے زیادہ کی قید بھی ہو سکتی ہے۔
گرفتار ہونے والی ایک عورت کا کہنا ہے کہ اسے نقاب کرنے پر کوئی بھی مجبور نہیں کرتا ہے بلکہ وہ اپنی مرضی سے برقعہ پہنتی ہے۔ گرفتار ہونے والی دوسری خاتون اس قانون پر سخت غصہ ہے۔ اسے 2مرتبہ گرفتار کیا جا چکا ہے اور گلیوں میں دھمکایا بھی گیا ہے بلکہ اسے جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی ملی ہیں۔1 اپریل 2011ء بروز پیر جب وہ احتجاج میں شریک ہونے آئی تو اسے گرفتار کر لیا گیا اور پولیس اسٹیشن پہنچا دیا گیا۔ وہ کہتی ہے کہ: ’’یہ بنیادی طور پر انسانیت کی آزادی کامسئلہ ہے۔ میں 12سال سے زیادہ عرصہ سے اس برقعہ میں خوش ہوں اور کو ئی چیز مجھے ایسا کرنے سے ہرگز روک نہیں سکتی ہے۔
ان واقعات کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلامی لباس ،خاص طور پر مسلمان عورتوں کا سر پر پہنے جانے والا سکارف مغربی یورپ میں اسلام کی موجودگی کی ایک واضح علامت بن چکا ہے اور یہ سب کوششیں اسلام کے خلاف کی جا رہی ہیں تاکہ کسی طرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والے مذہب اسلام کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ پوری امت کفر کے خلاف متحد ہو جائے۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کو دبایا جا رہا ہے۔ کیا یہ وہی امت ہے جس سے کبھی قیصرکسریٰ جیسی سپر طاقتیں بھی ڈرا کرتی تھیں؟ آج اس امت سے کوئی بھی نہیں ڈرتاہے۔ ہم وہی مسلمان ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنی ریاست میں اقلیتوں کو تحفظ اور ہر شخص کو مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیا ہے۔ مگر آج پوری دنیا میں ہماری مذہبی آزادی کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اگر آج بھی ہم کفر کے خلاف متحد نہ ہوئے تو وہ وقت دُور نہیں جب ہماری عزتیں بھی خطرے میں پڑسکتی ہیں
By Qamar Uz Zaman Mustafvi facebook.com/qamaruzzaman90
No comments:
Post a Comment