پیر پاور یا’’ہارس پاور‘‘ ؟
آپ یقین کریں کہ طاقت کے بغیر نہ کسی قوم کی عزت ہے اور نہ کسی انسان کی۔ اس عبارت کے حوالے سے یہ سوال ہے کہ طاقت حاصل کسیے ہوگی؟ صرف کونے کھدروں میں بیٹھ کر تسبیحاں گھمانے سے یا لوہے کو اسلحہ بنانے سے؟ اللہ تعالیٰ سورۃ الحدید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ ہم نے لوہا اتارا جس میں (اسلحہ جنگ کے لحاظ سے) خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔ جدیدفلکیات محققین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ہماری زمین میں پایا جانے والا لوہا بیرونی خلاء کے عظیم ستاروں سے آیا ہے۔ کائنات میں
پائی جانے والی بھاری دھاتیں بڑے ستاروں کے نیوکلیس میں پیدا ہوتی ہیں تاہم ہمارے شمسی نظام کے اندر از خود لوہا پیدا کرنے کے لئے موزوں ڈھانچہ نہیں ہے۔ یہ صرف سورج سے بہت بڑے سائز کے ستاروں کے اندر پیدا ہوسکتا ہے۔ جس میں درجہ حرارت کروڑوں درجہ ڈگری سینٹی گریڈتک پہنچ جاتا ہے۔جب کسی ستارے میں بننے والے لوہے کی مقدار ایک خاص حد سے متجاوز ہو جائے تو وہ اسے برداشت نہیں کر سکتا اور ایک دھماکے کے ساتھ Nova یا Super Nova خارج کرتا ہے جو ایک قسم کے شہابییے Meteorites ہوتے ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد خلاء میں پھیل جاتی ہے۔ یہ اس وقت تک حرکت کرتے رہتے ہیں جب تک کسی جرم فلکی کی قوت جاذبہ انہیں اپنی طرف کھینچ نہ لے۔
پائی جانے والی بھاری دھاتیں بڑے ستاروں کے نیوکلیس میں پیدا ہوتی ہیں تاہم ہمارے شمسی نظام کے اندر از خود لوہا پیدا کرنے کے لئے موزوں ڈھانچہ نہیں ہے۔ یہ صرف سورج سے بہت بڑے سائز کے ستاروں کے اندر پیدا ہوسکتا ہے۔ جس میں درجہ حرارت کروڑوں درجہ ڈگری سینٹی گریڈتک پہنچ جاتا ہے۔جب کسی ستارے میں بننے والے لوہے کی مقدار ایک خاص حد سے متجاوز ہو جائے تو وہ اسے برداشت نہیں کر سکتا اور ایک دھماکے کے ساتھ Nova یا Super Nova خارج کرتا ہے جو ایک قسم کے شہابییے Meteorites ہوتے ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد خلاء میں پھیل جاتی ہے۔ یہ اس وقت تک حرکت کرتے رہتے ہیں جب تک کسی جرم فلکی کی قوت جاذبہ انہیں اپنی طرف کھینچ نہ لے۔
لیکن لوہے کے فوائد حاصل کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام تو صرف ذکر اذکار کرنا، ’’اللہ ھو ‘‘کی محفلیں لگانا ، قوالیوں کے لئے جلسے منعقد کرنا اور قبروں پر چادریں چڑھانا ہے۔ رہا لوہے سے اسلحہ بنانا، ٹینک اور میزائل بنانا، کلاشن کوف بنانا، لانچر اور راکٹ بنانا یہ تو ہمارا کام ہی نہیں ہے۔ یہ تو یہود و نصاریٰ کا کام ہے۔ یہ دہریوں اور ہندؤں کا کام ہے۔ ہمیں کسی قسم کی طاقت حاصل کرنے سے کوئی غرض نہیں۔جب جنگ مسلط ہوگی تو پیرانِ پیر یہودو نصاریٰ اور ہندؤں اور دہریوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
شیدائی غائب نہ رہ، دیوانہ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر
تاریخ گواہ ہے کہ وہ بغداد جو تیرھویں صدی عیسوی میں دنیا کے حسین ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔۔۔ بازار کی رونقیں ایسی ہوتی تھیں کہ اہل دنیا کے دل اس کی طرف کھنچے چلے جاتے تھے۔۔۔تفریح گاہیں تھیں کہ لوگوں کا اژدھام تھا۔۔۔مدارس و خانقاہیں شائقین علم سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں۔۔۔ تمام عالم اسلام کا مرکز بغداد۔۔۔ دیکھنے والے کہہ سکتے تھے کہ اسکے شباب پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔۔۔ ہر طبقہ اپنی دنیا میں مست تھا، حکمران محلات کی دنیا میں مدہوش۔۔۔ تاجر بازاروں کے اثیر۔۔۔ اہل علم علمی موشگافیوں کا شوق پالے۔۔۔ سب سوئے ہوئے سوائے چند کے۔۔۔ بلکہ خوفریبی کے نشے میں دھت۔۔۔ جب تاتاریوں نے 1258ء میں شہر بغداد پر حملہ کیا تو وہ قتل عام کیا کہ مؤرخ کا قلم اس ظلم کو زیرِ قرطاس لانے کی ہمت نہیں کر پاتا۔۔۔ چالیس دن تک مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا، نہ عورتیں بچیں نہ بچے۔۔۔ نہ بوڑھوں پر ترس کھایا گیانہ بیماروں پر۔۔۔ نہ مساجد میں امان ملی نہ خانقاہیں محفوظ رہیں۔۔۔ اسی طرح جب صدر بش نے بیسویں صدی میں بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو ’’ گیارھویں والے ‘‘ اہل بغداد کو بچانے کے لئے نہ آسکے۔6 سال اہل بغداد بھوک سے بلکتے رہے۔آخر امریکہ نے ان کو تیل برآمد کرنے کی اجازت دی اور صرف اتنا تیل جس سے یہ اپنی ’’خوراک‘‘ خرید سکیں۔
اس طرح جب ہندؤں نے بابری مسجد کو شہید کیا تو کوئی مرشد ہندؤں کویہ کرنے سے پہلے ہی غرق نہ کر سکے اور اسی طرح جب یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کیا تو اللہ کے پیارے، ہمارے فلسطینی بھائی ان کی طرف پتھر ہی پھینکتے رہے۔
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانانِ تتاری کس قدر صاحبِ نظر نکلے!
ہر زمانہ طاقت کا رہا ہے، اور طاقت حاصل کرنا، ظلم کے تدراک کے لئے اشد ضروری ہے اور یہ طاقت صرف تسبیحات گھمانے سے نہیں اسلحہ سے آئے گی۔ اس لوہے کو کام میں لانے سے آئے گی جس کو اللہ نے اُتارا ہے۔ مگر یہ لوہا خود بخود زمین سے باہر نکل کر اسلحہ نہیں بن جائے گا بلکہ یہ کام انسانوں کو کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح ہدایت کی ہے کہ’’ تم طاقت حاصل کرو‘‘۔
’’ اور جہاں تک ہو سکے (فوج کی جمیعت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے اُن کے (مقابلے کے) لئے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔‘‘ سورۃ الانفال آیت60
اس آیت میں قوت پیدا کرو اور گھوڑے تیار رکھو کی طرف خاصا زور دیا گیا ہے۔ آج کی زبان میں یہاں قوت سے مراد ایٹمی ہتھیار اور گھوڑوں سے مراد جنگی سواریاں ہیں جیسے بحری بیڑے اور جنگی جہاز۔ قرآن کی وسعت مضمون کا یہ عالم ہے کہ آج اس ایٹمی دور میں بھی بھاگنے والی مشینوں کی طاقت کو ’’ہارس پاور‘‘ سے ناپا جاتا ہے۔ مگر ہمیں ہارس پاور سے کیا؟ ہمیں تو ’’پیر پاور‘‘ سے واسطہ اور یقین ہے۔ ہمارا پیر کامل ہونا چاہئے وہ اگر چاہے تو امریکہ اور یورپ کیا ساری دنیا کو آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی اپنے قدموں میں لا کر ڈھیر کر سکتا ہے۔ہمارا پیر اگر چاہے تو فرشتوں کو حکم دے کہ وہ دنیا کا تخت اُلٹ دیں، تو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا تخت اُلٹ جائے گا۔
ہم جو جیتے تھے، تو جنگوں کی مصیبت کے لئے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لئے
مسلمانو! یقین کرو کہ یہ کام نہ تو خالی دعاؤں سے ہونگے اور نہ پیر و مرشد کے مزاروں پر دھمال ڈالنے سے اور نہ ہی خانقاہوں پر عرس منانے سے ہونگے۔یہ کام صرف اور صرف ایک ہی صورت میں ہونگے اور وہ وہی صورت ہے جس کا حکم قرآن نے ہمیں دیا ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں سورۃ الانفال کی آیت60 میں ہوا ہے کہ ’’تم طاقت حاصل کرو‘‘
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ھواللہ احد کہتے تھے
No comments:
Post a Comment