Pages

Subscribe:

Labels

Sunday 5 February 2012

آج کا مسلمان اور دو خداؤں کی پوجا

آج کا مسلمان اور دو خداؤں کی پوجا
قمرالزمان مصطفوی

روزانہ کروڑوں مسلمان امت مسلمہ کے لئے ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتے ہیں اور رمضان المبارک میں خاص طور پر اسی مقصد کے لئے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ ہر سال حج کے موقع پر بھی لاکھوں مسلمان امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ، کفر پر اسلام کے غلبے، کشمیر، فلسطین، کوسووا اور مسلمانوں کی دوسری سر زمینوں کی کفر کے غلبے سے آزادی اور امت مسلمہ کی عظمت ماضی کے مطابق سر بلندی کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام اخلاص سے بھرپور نمازوں اور دعاؤں کے باوجود امت مسلمہ کی حالت دن بدن بد سے بدترین کی طرف
گامزن ہے اور بہت سے مخلص دعا گو مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو کیوں نہیں سنتا اور اس نے کفار کو جب اور جس طرح وہ چاہیں امت مسلمہ کی حالت بگاڑنے، اس کی خون ریزی کرنے کی، اور اسے تباہ و برباد کرنے کی کھلی چھٹی کیوں دے رکھی ہے۔ کفار اسلام کو نیست و نابود کرنے پر کامیابی سے تلے ہوئے ہیں، اس کے باوجود کہ بے شک مسلمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔
اس صورتِ حال کے باعث امت مسلمہ میں سے علماء، اسلامی جماعتوں اور چند افراد نے امت کو اس بدتر صورتِ حال سے نکالنے کا ارادہ فرمایا اور انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے مسلمانوں کو پانچ وقت نماز باجماعت مسجد میں پڑھنے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ نوافل کی کثرت سے ادائیگی، روزوں کی پابندی اور حج کے لئے باقاعدگی سے مکہ کی زیارت اور اخلاق حسنہ (سچ بولنا، عاجز اورایماندار ہونا) سے متصف ہونے پر بہت زور ینے کو ہی غنیمت جانا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ ان اوصاف کا ختم ہو جانا ہے اس لئے مسلمانوں میں نشاط ثانیہ تب ہی ممکن ہے جب تک مسلمان ان چند اعمال کی ادائیگی اور ان اوصاف کو اپنا نہ لیں۔
اگر ہم حقیقت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کہ بلاشبہ ہم میں ان اوصاف کا فقدان ہے۔ جھوٹ بولنے میں ہم نہیں شرماتے، ایمانداری سے کام ہم نہیں کرتے، اخلاص ہم میں نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب صرف یہ چند چیزیں نہیں ہیں کہ مسلمان نماز نہیں پڑھتے یا تقویٰ نہیں رکھتے، اگر کسی کو اس بات میں شک ہو تو اسے رمضان المبارک کے دوران ذرا مساجد میں نظر دوڑانی چاہیے یا حج کے دوران آہ و ذاری کو غور سے سننا چاہیے۔ بلا شبہ اصل وجہ یہ نہیں بلکہ مسلمانوں کا اصل زوال اس روزشروع ہوا تھا جب مسلمانوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ ریاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مذہب تو صرف نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی کرنے تک محدود ہے اور ریاست کے متعلق مذہب جدید رہنمائی فراہم کرنے سے قاصر ہے لہذٰا اسلام صرف مساجد تک محدود ہے۔
اگر کوئی تاریخ پر نظر دوڑائے تو اس کی اصل وجہ اجتہاد کے عمل کو چھوڑ دینا تھا۔ ’’اجتہاد اس عمل کا نام ہے جس کے ذریعے نئے مسائل کے حل کے لئے قرآن و سنت سے حکم شرعی تلاش کیا جاتا ہے‘‘۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
’’ جب کوئی حاکم فیصلہ کرے پس اجتہاد کرے اور صحیح رائے تک پہنچے تو اس کے لئے 2 اجر ہیں اور جب فیصلہ کیا پس اجتہاد کیا اور غلطی کی اس کے لئے 1 اجر ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
مسلمانوں کے زوال کی دوسری وجہ عربی زبان کو اسلام سے جُدا کر دینا تھا جس سے اسلام کی قوت حیات ہی چھن گئی۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جب یورپ صنعتی انقلاب سے گزر رہا تھا، اس وقت مسلمان اپنی عظمت ماضی اور ترقی پر اطمینان کئے بیٹھے تھے اور انہوں نے یورپ کی ترقی سے غفلت برتنا شروع کر دی۔ بلکہ بعض مسلم علماء نے تو مغربی تہذیب کے ساتھ ساتھ مغربی اشیاء کا بھی بائیکاٹ کرنے کی ترغیب دینا شروع کر دی۔ یہ اس لئے تھا کیونکہ اجتہاد کا عمل ختم ہو چکا تھا اور علماء یہ نہ سمجھ سکے کہ مغرب سے کیا لیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں، اس لئے انہوں نے کچھ بھی نہ لینے کا فیصلہ کر لیا اور یہ کہا کہ مغرب سے آنیوالی ہر چیز شیطانی اور حرام ہے۔ اس بات کا نتیجہ اس صورت حال سے ملتی جلتی شکل میں نکلا جس کا یورپ چند صدیوں پہلے سامنا کر چکا تھا، یعنی جب چرچ، خدا کے نام پر، بادشاہ سے ملی بھگت کرتے ہوئے لوگوں پر ہر طرح کا ظلم ڈھایا کرتا تھا اور یہ دونوں اپنے اس مقصد کے لئے تحقیق و ترقی کو روکنے یا اس پر پابندیاں لگانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اگرچہ مسلم دنیا میں صورت حال اس قدر خراب نہ تھی لیکن کفار نے یہ جان لیا کہ اسلام پر کاری ضرب لگانے کا یہ سنہری موقع ہے۔ پس انہوں نے اسلام کے خلاف کئی ایک گمراہ کن پروپیگنڈوں کا آغاز کر دیا مثال کے طور پر جدیدطرز زندگی کے ساتھ اسلام کی نامناسبت اور نئے مسائل حل کرنے میں اسلام کی معذوری۔ مسلمانوں نے اس کو اسلام پر حملہ تصور کیا اور دفاعی پوزیشن اختیار کر لی۔ انہوں نے اپنی بے وقوفی سے وہی کچھ کیا جو کفار ان سے چاہتے تھے، یعنی وہ سیکولر بن گئے۔
جو بات ہو حق ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدا نے مجھ کو دیا ہے دل خبیر و بصیر
میری نگاہ میں ہے یہ ساست لادیں
کنیزا ھرمن و دوں نہاد مردہ ضمیر
اس دور کے دوران جب چرچ بادشاہ کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہوئے یورپ میں لوگوں کا استحصال کر رہا تھا، تب یورپ میں کچھ ایسے مفکرین منظر عام پر آئے جو چرچ اور ریاست کو جدا کر دینے کی آواز بلند کرنے لگے جبکہ دوسرے مفکرین تو چرچ کا مکمل خاتمہ ہی کرنا چاہتے تھے، کیونکہ وہ چرچ ہی کو ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ سمجھتے تھے اور ایسا واقعی تھا بھی۔ آخر کار ’’چرچ کے ریاست سے جدا کر دینے کی رائے‘‘ ہی غالب رہی اور اس فکر کو مغرب نے اختیار کر لیا۔ اس فکر کے اختیار کرنے سے یعنی دین کا معاشرتی زندگی سے جدا کر دینے کی فکر سے مغربی دنیا میں سب کچھ بدل گیا۔ انہوں نے خدا کے قوانین کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے لئے خود قوانین وضع کرنا شروع کر دئیے۔ بعض مغربی ملکوں نے جمہوریت کو اپنے لئے بطور نظام حکمرانی اختیار کر لیا، جس نے لوگوں کو خود قوانین بنانے کا اختیار دے دیا، جو اس وقت تک چرچ ہی کے اختیار میں تھا۔ دوسرے الفاظ میں مغرب نے لادینیت (Secularism) کو بطور فکر یا عقیدے کے اپنا لیاجس میں ان کے نظام ہائے حکمرانی، معیشت، عدل، معاشرت اور دوسرے نظام صدور پذیر ہوتے ہیں اور اس سے زندگی میں ان کی تمام مشکلات کا حل لیا جاتا تھا۔ مذہب کو لوگوں کی انفرادی زندگی تک محدود کر دیا گیا اور ہر کسی کو اجازت تھی کہ وہ جیسا چاہے عقیدہ رکھے جب تک کہ یہ عقیدہ معاشرتی زندگی سے تضاد کا باعث نہ بنے۔ یہ ہے سیکولرزم اور یہی وہ فکری قیادت ہے جس کا مغرب حامل ہے اور اسی کی طرف دعوت دیتا ہے۔
ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد
فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر
متاعِ غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی
تو ہیں ہر اول لشکر کلیسیا کے سفیر
اسلام کے دفاع کی کوشش میں مسلمانوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اسلام بھی جدت پسند ہے اور جمہوریت تو درحقیقت اسلام کی روح ہے اور کوئی ایسی چیز جو فائدہ مند ہو اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کیونکہ اسلام تو آیا ہی بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ہے، بنا یہ سوچے سمجھے کہ ہمارے پاس ہمارا نظام حکومت (نظام خلافت) پہلے سے موجود ہے اور اس کے علاوہ ہمارے پاس کسی بھی دوسرے نظام ھکمرانی کی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح بہت سے احکامات مثال کے طور پر اجتہاد، کثرت ازدواج، حدود اور دوسرے کئی احکامات کو بدل دیا گیا اور ان کی شکل کو بگاڑ دیا گیا تاکہ اسلام کو کفار کے سامنے جدت پسند مذہب کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اسلام کے بارے میں صحیح سمجھ نہ رکھتے تھے (کیونکہ یہ کام کروانے سے پہلے کفار نے مسلمانوں میں سے اسلام کا اصل تصور ختم کر دیا تھا)۔ بہت سے مسلمان جو ترقی کے خواہاں تھے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ترقی کرنے کے لئے اسلام کو انفرادی اعمال تک محدود کرنا پڑے گا اور معازشرتی زندگی اور نظاموں سے متعلق تمام احکامات مغرب سے لینے ہوں گے۔ یہی بات آخر کار خلافت کے اختتام کا باعث بنی جو کہ واحد اسلامی ریاست تھی جو 13 سو سال سے زائد عرصہ سے معاشرتی زندگی میں اسلام نافذ کرتی آرہی تھی۔ برطانوی کفار کے ایجنٹ مصطفی کمال اتا ترک نے، ترقی کے نام پر خلافت کا خاتمہ کر دیا اور ترکی کو سیکولر ریاست قرار دیا، اسلامی عدالتوں اور قوانین کو ختم کر دیا، ترک قومیت کی طرف پکارا، عورتوں کو حجاب پہننے سے روک دیا۔ آیا سافیا مسجد کو عجائب گھر میں بدل دیا اور اس طرح کے اور بہت سے کفر اعمال سر انجام دیئے۔
یہ تیرہ سو سال میں پہلی مرتبہ ہوا کہ اسلام جو اللہ کا دین اور قیامت تک آنیوالی نسل کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے کو معاشرتی زندگی سے باہر کر کے صرف انفرادی اعمال تک محدود کر دیا گیا۔ اور ایسا صرف ایک یا دو ملکوں میں نہیں بلکہ تمام دنیائے اسلام میں ہوا۔ مسلمانوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ ترقی کے لئے ، مغربی طرز کو اپنانا پڑے گا، جبکہ اسلام تو آیا ہی صرف لوگوں کے اخلاق کی درستگی کے لئے اور نماز ،روزوں کی تعلیم دینے کے لئے ہے۔
اسلام کوئی مذہب ہی نہیں جو صرف نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے پر مشتمل ہو بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں صرف عبادات ہی نہیں، بلکہ نظام معیشت، نظام حکمرانی (خلافت)، نظام معاشرت غرض سبھی نظام شامل ہیں۔ یہ نظام صرف نبیﷺ کے صحابہ کے لئے نہیں بلکہ تمام نوع انسانی اور تمام زمان و مکان کے لئے آیا تھا۔ اسی لئے قرآن میں ارشاد فرمایا گیا:
’’ آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین (نظام زندگی) کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا‘‘۔ (المائدہ : 3)
یہاں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر دوسرے دینوں (نظاموں) کی پیروی نہ کریں کیونکہ اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
’’ در حقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو‘‘۔ (الاحزاب : 21)
یہاں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مکمل طور پر نبی اکرمﷺ کی پیروی کریں اور ان کے اسوہ مبارک کو کلی طور پر لیں۔ کیا اللہ کے رسولﷺ نے صرف نماز پڑھنا سکھائی ہے یا ملک کی معیشت چلانا بھی سکھائی ہے؟ ہمیں اس بات کا کوئی اختیار نہیں کہ ہم عبادات میں تو رسول اللہ ﷺ کی پیروی کریں اور معیشت کے لئے کارل مارکس کی طرف رجوع کریں اور معاشرتی امور، ریاستی امور اور خارجہ پالیسی کے لئے سرمایہ درانہ یا اشتراکی نظام کو اسوہ بنائیں۔ بلا شبہ اگر نبی اکرمﷺ کی دعوت صرف نماز اور روزے کی ہوتی، تو کفار مکہ کبھی بھی آپﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ کو اتنی زبردست ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے دو چار نہ کرتے۔ نہیں بلکہ یہ آپﷺ کی کفر کے نظام کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے اور اس کی جگہ اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی دعوت تھی جس سے کفار بوکھلا اٹھے اور اس قدر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ کفر ریاستوں کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ ہم وہ امت ہیں جسے تمام نوع انسانی کی رہنمائی کا فرض سونپا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ تم دنیا میں بہترین امت ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آل عمران : 110)
ہم پر یہ فرض تھا کہ ہم مغربی اقوام کی رہنمائی کرتے کہ وہ سیکولرزم چھوڑ کر اسلام کو اپنا دین بنا لیں، اس کی بجائے ہم تو خود ہی سیکولر بن گئے اور اسلام کو صرف عبادات تک محدود کر دیا۔ ہمیں یہ بات جاننی چاہیے کہ مغربی اقوام نے سیکولرزم اس لئے اختیار کیا کہ عیسائیت انہیں ان کے مسائل کا حل نہیں دیتی تھی اس لئے اپنی ترقی کی خواہش کی وجہ سے انہیں عیسائیت کو پس پشت ڈالنا پڑا اور انہوں نے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی ٹھا ن لی۔ لیکن اسلام عیسائیت کی طرح نہیں، بلکہ حقیقت میں تو یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اگر ہم بھی اسلام کو ترقی کے نام پر صرف انفرادی زندگی تک محدود کردیں تو ہم بھی صریح گمراہی میں پڑ جائیں گے۔
درحقیقت سیکولرزم زندگی کو عملا دو خداوں میں بانٹ دیتا ہے، ایک وہ خدا جسے ’’مذہب‘‘ کے دائرے میں پوجا جاتا ہے اور ایک وہ خدا جو ’’قانون‘‘ کے دائرے میں پوجا جاتا ہے یعنی مذہب کے خدا کے دیے گئے حکم کا احترام تو ضرور ہوگا مگر وہ حکم قانون نہیں ہوگا۔ کیونکہ قانون بننے کے لئے پارلیمنٹ کی منظوری لازم ہے۔ یعنی ’’مذہب‘‘ کے خدا کو ’’قانون‘‘ کے دائرے میں بہرحال ’’قانون‘‘ ہی کے خدا کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ ’’قانون‘‘ کے خدا کی منظوری کے بغیر ’’مذہب‘‘ کا خدا جو مرضی کہہ لے اس کا کہا ’’مذہب‘‘ تو ہوتا ہے لیکن ’’قانون ‘‘ نہیں۔ یہ ہے سیکولرزم جو کہ سیدھا سیدھا رب کے ساتھ کفر ہے کیونکہ اسلام کی رو سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے جو بات کہہ دی وہی ہمارا مذہب اور وہی ہمارا قانون ہوتا ہے۔ اور وہ قانون بننے کے لئے کسی پارلیمنٹ کا محتاج نہیں ہوتا۔
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے             تواحکام حق سے نہ کر بیوفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟               خلافت کی کرنے لگا تو گدائی!
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے          مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی!

No comments:

Post a Comment