Pages

Subscribe:

Labels

Sunday 5 February 2012

نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو!

نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو!
قمرالزمان مصطفوی


اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: ’’ اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے، اور بدی سے روکے۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (آل عمران : 104)
دنیا کی قومیں اپنے لئے زندہ رہتی ہیں، اپنے لئے جدو جہد کرتی ہیں۔ اپنی ترقی، اپنی عظمت، اپنی سر بلندی اور اپنے لئے قوت و سطوت حاصل کرنے کے لئے کو شاں ہوتی ہیں۔ لیکن اے مسلمانوں تمہیں دنیا والوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہے۔تمہیں دنیا والوں
کے لئے زندہ رہنا ہے۔ جیسے اقبال نے شکوہ میں کہا ہے:
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے، جام رہے!
آج ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم بھی ویسے ہی ایک قوم ہیں جیسے دنیا کی دوسری قومیں ہیں۔ ہم میں سے ہر فرد کو بھی اس لئے جینا ہے اور دوڑ بھاگ کرنی ہے، جیسے کوئی ہندو، کوئی سکھ اور کوئی پارسی اپنی معاش کے لئے، اپنی اولاد کی پرورش کے لئے، اپنا گھر بنانے، اس کو سجانے اور سازوسامان جمع کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ہم نماز پڑھ لیتے ہیں، وہ جانا چاہے تو کسی مندر میں چلا جاتا ہے۔ اور ہم میں بھی نماز پڑھنے والے کتنے رہ گئے ہیں؟ پھر یہ کہ اجتماعی سطح پر جو اُن کے اہداف و مقاصد ہیں وہی ہمارے Goal بنے ہوئے ہیں۔ ان کا بھی زور چلتا ہے تو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں، دوسروں کی زمینیں چھین لیتے ہیں، دوسروں کے حقوق غصب کر لیتے ہیں، ہمارا بھی داؤ لگتا ہے تو ہم بھی یہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ یہ ہے ہمارا دور زوال کہ امت یہی بھول گئی، کہ ہمارے مقاصد کیا تھے؟ ہمارا نصب العین کیا تھا؟
یہ بات عام طور پر سننے میں آتی ہے کہ سب کو اپنی اپنی فکر کرنی چاہیے کیونکہ سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے، دوسرے جو بھی کریں ہمیں اس سے کیا، وہ اپنا حساب کتاب خود بھگتے گے، لہذٰا ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ اگر ہم معاشرے کو دیکھیں تو اس میں ہم سب الگ الگ زندگی گزار رہے ہیں۔ بلکہ انسانوں کا میل ملاپ ہوتا ہے جسکی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر معاشرے کے ایک طبقے میں کوئی برائی سرایت کر جائے تو آہستہ آہستہ وہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، اسکی مثال مختلیف معاشروں میں عام طور پر دیکھی جاتی ہے۔ مثال کے طور مغربی معاشروں میں آج سے کئی سال قبل Homosexuality کا ذکر نہیں ملتا تھا لیکن آج یہ برائی اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس کو بہت سے ممالک میں عوام کے مطالبے پر جائز قرار دے دیا گیا ہے اور اسے قانونی تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔ اس کا بخوبی اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود ہمارے معاشرے میں آج سے کئی سال قبل کوئی برائی کیا حیثیت رکھتی تھی؟ اور آج وہ کتنی عام ہو چکی ہے۔ لہذٰا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہمیں صرف اپنی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ کوئی بھی معاشرے سے لا تعلق ہو کر نہیں رہ سکتا اور ہر ایک پر معاشرے کے اندر موجود صحیح اور غلط افکار کا اثر ہوتا ہے۔
ہم سے پہلے جتنی بھی امتیں گزری ہیں ان میں جب بھی حکم ربانی سے دوری اور برائی عام ہو جاتی تو اللہ ان میں انبیاء بھیج دیتا تھا جو ان کو صراط مستقیم کی طرف واپس لانے کا کام سرانجام دیتے تھے، لیکن حضرت محمدﷺ خاتم النبین ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تو اب دنیا میں ’’نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے‘‘ اور دین اسلام کو پھیلانے کا کام امت مسلمہ کو سونپ دیا گیا ہے۔
’’تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لئے نکالا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو، بدی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران : 110)
لہذٰا اب یہ ہر ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے معاشرے میں اور پھر ساری دنیا میں اسلام کا پیغام لیکر نکلے۔ کیونکہ اس کام کی وجہ سے اللہ نے ہمیں ’’بہترین امت‘‘ کا لقب دیا ہے۔ آج اس چیز کی بہت شدت سے ضرورت ہے کہ لوگوں کو یہ بتا یا جائے کہ جس خدا کے آگے مسجد میں سجدہ کیا جاتا ہے، اسی خدا کے حکم کے مطابق ریاست بھی چلائی جاتی ہے، اسی کے نبیﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پر ملکی معیشت کی عمارت استوارکی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کا دیا گیا نظام کبھی ہماری فلاح کا باعث نہیں ہو سکتا، خود ہمارا بنایا گیا نظام ہمارے حق میں بہتر نہیں ہو سکتا۔ جو شخصاپنے اس فرض میں کو تاہی برتے گا اس کے لئے نبی رحمتﷺ نے سخت وعید سنائی ہے۔
’’ قسم اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم پر لازم ہے اور تم کو تاکید ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہو یا پھر ایسا ہو گا کہ اللہ تم پر اپنا کوئی عذاب بھیج دے گا، پھر تم اس سے دعائیں کرو گے اور تمہاری دعائیں قبول نہ کی جائیں گی۔‘‘ (جامع ترمذی)
کچھ لوگ یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ پہلے ہمیں خود صحیح ہونا چاہیے پھر دوسروں کو ٹھیک کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
’’ کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو؟ اور اپنے تئیں بھول جاتے ہو؟‘‘ (البقرۃ : 44)
اس آیت کے بارے میں تفسیر ابن کثیر میں ہے:
’’ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نیکی کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے۔ اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہیے جیسے حضرت شعیب علیہ سلام نے فرمایا تھا: میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں، وہ خود کروں۔ میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے، میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے، میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے۔ پس نیک کاموں کے کرنے کے لئے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی واجب۔ ایک کو نہ کرنے سے دوسرا بھی نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے۔ گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے۔ اگر دونوں چھوڑ دے گا تو دوہرا گناہ گار ہوگا۔ ایک کے ترک پر اکہرا۔‘‘
دراصل ان لوگوں نے اسلام کے احکامات کو صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں۔ دنیا میں انبیاء کرام علیہ سلام کے علاوہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جو خطاء سے پاک ہو لیکن اللہ نے تمام امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دے کر یہ بات واضح کر دی کہ ’’اپنے آپ کو صحیح کرنے‘‘ میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر شخص نیکی کا حکم کرے اور برائی سے منع کرتا رہے ورنہ خود بھی عذاب الٰہی کا مستحق بن جائے گا۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے صحابی رسولﷺ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے:
’’ اگر ہر شخص یہ سوچ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دے کہ میں خود گناہ گار ہوں، جب گناہوں سے پاک ہو جاؤں گا تو لوگوں کو تبلیغ کروں گا، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تبلیغ کرنے والا کوئی بھی باقی نہ رہے گا، کیونکہ ایسا کون ہے جو گناہوں سے بالکل پاک ہو۔‘‘
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے:
’’ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ لوگ اسی غلط خیال میں پڑ کر تبلیغ کا فریضہ چھوڑ دیں۔‘‘ (قرطبی)
امر بالمعروف و نہی عن المنکر اسلامی فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے۔ جس طرح نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے اسی طرح حق کی تبلیغ بھی فرض ہے۔ اگر کوئی قوم غلط راہ پر چل پڑے تو اس کی اصلاح کرنا فرض ہے۔ یہ کوئی صرف مولوی حضرات اور علماء کا کام نہیں بلکہ یہ ہر مسلمان کا فرض عین ہے، چاہے وہ کسی کالج میں پڑھنے والا طالبعلم ہے یا کسی ٹیلی کام کمپنی کا انجنیئر۔ یہ ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ ہی ہے جو معاشرے میں ایک فلٹر کا کام کرتا ہے۔ جب معاشرے میں کوئی برائی پھیلنے لگتی ہے تو ہر طبقے کا فرد، خواہ وہ ڈاکٹر ہو، انجنئیر ہو، یا کوئی تاجر، وہ اس کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی بھی غلط کو غلط اور ٹھیک کو ٹھیک کہنے والا نہ ہوگا تو وہ برائی پھیلتے پھیلتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی۔
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں، لا الٰہ الا اللہ

No comments:

Post a Comment