مغربی سرمایہ دارانہ نظام۔۔۔ آخری دموں پر؟
مریم عزیز
فری مارکیٹ کے پر کشش نام سے یہ نظام بظاہر لوگوں میں مقبولیت پا گیا مگراس کی حقیقت دراصل یہ تھی کہ کمیونزم کی طرح یہ نظام بھی انسانی معاشرے کی تمام بنیادوں کو نظر انداز کرکے معیشت کے تابع کردیتا ہے۔
قارئین کرام، آج کل مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق خبروں کے بہت چرچے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ تنگ آئے مغرب کے عوام،جواب تک اپنے معاشی، سیاسی اور سماجی نظام سے مطمئن چلے آرہے تھے، بالآخراس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے
ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس نظام کے ڈسے ہوئے عوام صرف مغرب میں نہیں ہیں تیسری دنیا کے عوام بھی اس نظام کے ظلم میں برابر کے شریک ہیں ۔لیکن پہلے ہمارے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی اصلیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس نظام کے ڈسے ہوئے عوام صرف مغرب میں نہیں ہیں تیسری دنیا کے عوام بھی اس نظام کے ظلم میں برابر کے شریک ہیں ۔لیکن پہلے ہمارے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی اصلیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا معاشی نظام جس میں زمین،فیکٹریاں،مواصلات اورحمل ونقل کے تمام منافع بخش ذرائع ذاتی ملکیت کے طور پر چلائے جاتے ہیں۔یہ نظام زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی مسابقت کے اصول پر قائم ہے۔سٹے بازی کی طرح (انوسٹمنٹ)پیسہ لگایا جاتا ہے۔ کارپوریشنیں اپنی فروخت بڑھانے کیلئے اشتہار بازی کا سہارا لیتی ہیں۔لوگوں کی جیب سے پیسے نکلوانے کیلئے ہر طرح کے فتنہ پرور طریقے اپنائے جاتے ہیں۔پر کشش ’ماڈل‘ مرد اور عورتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ انسانی زندگی میں پائی جانے والی ہر چیز کی کمرشیالائزیشن ، چاہے وہ انسانی جسم ہو، بات کرنے کی صلاحیت ہو، تہوار ہوں، شادی بیاہ کا معاملہ ہو، یا مذہبی جذبات ہوں۔ انسانی کمزوریوں جیسے، طمع، شہوانی جذبات، دکھلاوا وغیرہ کے استحصال کرنے کی ان کمپنیوں کوپوری آزادی دی جاتی ہے۔ لوگوں کے جذبات سے کھیل کر،سماجی قدروں کو برباد کرکے ان کو ضرورت سے زیادہ خریدنے اور خریدتے چلے جانے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر پیسہ جیب میں نہ ہو تو سودی قرضوں اور کریڈٹ کارڈوں کو وقت کی ’اشد ضرورت‘بناکر خریداری کے رجحان کو بڑھایا جاتا ہے۔دولت کمانے کی دوڑمیں کارپوریشنیں اشیاء کی قیمتیں اپنی مرضی سے مختص کردیتی ہیں اورعوام کے انتخاب کو محدود سے محدودتر کیا جاتا ہے۔اس نظام کی اصل خصوصیت چندکروڑ پتیوں کے ہاتھوں میں سرمایے کا ارتکاز، بڑی کارپوریشنوں کا حجم بڑے سے بڑا ہوتے چلے جاناہے جس کے نتیجے میں شدید معاشی عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔
ماضی میں اشتراکیت کی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام دباؤ کا شکار رہتا تھا جس کی وجہ سے بہت پہلے سے اس نظام میں مسلسل پیوند کاری ہوتی رہی تاکہ اس نظام کو عوام مخالف نہ سمجھا جائے ۔ اجارہ داری کو کم کرنے کے لئے قانون بنائے گئے۔ مختلف ادوار میں لیبر قوانین کی تدوین اور ارتقاء ہوتارہا جس کا مقصد اشتراکیت کو بے اثر کرنا تھا۔اپنے نظام کی اصلاح اور پیوندکاری کر کے مغرب بہت مطمئن تھا کہ اس نے ایک مثالی معاشی نظام بنادیا ہے۔سوویت یونین کے زوال کے بعد تو اس نظام کے علمبرداروں نے خوب بغلیں بجائی اور اینڈ اف ہسٹری(End of hisotry) نامی کتاب لکھ کر یہاں تک دعوی کیا گیا کہ انسانی نظام ارتقاء کرتے کرتے اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے اور اب مزید آگے بڑھنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا۔*
نوے کی دہائی کا دور، اس کی ظاہری چمک دمک کی وجہ سے ہر کوئی یہ دعویٰ کرنے لگا کہ اب دنیا کو کسی اور نظام کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس موضوع پر رائے دی گئی کہ سوسائٹی میں کیپٹل ازم کے اپنے معاشی ، مذہبی اور نفسیاتی اثرات پائے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ دین کی طرح کسی معاشرتی اکائی میں اکنامک سسٹم لوگوں کی روز مرہ سوچ اور عمل کا جزو بن جاتا ہے۔فری مارکیٹ کے پر کشش نام سے یہ نظام بظاہر لوگوں میں مقبولیت پا گیا مگراس کی حقیقت دراصل یہ تھی کہ کمیونزم کی طرح یہ نظام بھی انسانی معاشرے کی تمام بنیادوں کو نظر انداز کرکے معیشت کے تابع کردیتا ہے۔ فری مارکیٹ کے نام سے حکومتیں سرمایہ داروں کو پوری اجازت دیتی ہے کہ سرمایہ کی تکثیر کے لئے تمام معاشرتی اور اخلاقی بنیادوں کو پامال کرے۔بڑی کارپوریشنیں اپنی تجارت بڑھانے کی جد و جہد میں زیادہ سے زیادہ پیداوار اور مصنوعات کی فروخت کی دوڑمیں لگ جاتی ہیں۔فروخت بڑھانے کیلئے کنزیومر ازم کا سہارا لیا جاتا ہے۔شماریات (Statistics) اور ٹکنالوجی کے علوم کو استعمال کرکے صارفین کواشیاء خریدنے پر ’ورغلایا‘جاتاہے۔ایک جاذب نظر اشتہارکس طرح بنایا جائے اس کے لئے بھی باقاعدہ افراد پر دل کی دھڑکن،اور دماغی لہروں کی اونچ نیچ کو جانچنے والے آلات نصب کرکے سائنسی تجربوں کے ذریعے کاری حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایسے سازو آواز،رنگ ، کاسٹیوم اور ماڈل عورتوں کا سہارا لیا جاتا ہیجن سے نظریں ہٹانا مشکل ہو۔قوت خریدنہ ہونے کی صورت میں ’آسان سودی قرضوں‘کے جال میں پھنسا لیا جاتا ہے۔اس طرح بینک اور فنانس کے ادارے اور پھر اسٹاک ایکسچینج پروان چڑھتے ہیں۔عوام کا ایسی چکا چوند زندگی کی ہوس کا شکار ہوجاناکوئی حیرانی کی بات نہیں جبکہ فری مارکیٹ کے پروردہ اپنی پوری عشوہ طرازیوں کے ساتھ سادہ لوح عوام پر حملہ آور ہوئے ہوں۔
یہ نظام کافی حد تک چل بھی گیا اور جب بھی کوئی مسئلہ ہوا پیوند کاری اور سرکاری مداخلت سے اس کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔لیکن کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ نظام اندر سے کھوکھلا ہورہا ہے۔ 9/11 کے بعد امریکہ نے جو جنگوں کے دروازے کھول دیے اس سے اس نظام کی کمزوری کھل کر سامنے آئی بالکل اسی طرح سے جس طرح سویت یونین کے افغانستان میں پھنسنے کے بعداشتراکیت کا جنازہ نکل گیا۔
۲۰۰۸ میں لیہ مین برادر(Lehman brother)کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں اس نظام کا پہلا ستون گرا۔اس کے بعد یہ مسئلہ بڑھتا ہی گیا۔ ہاؤسنگ مارکیٹ دیوالیہ ہوئی تو لوگوں کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی۔اس وجہ سے جب چھوٹی بڑی کمپنیاں دھڑادھڑ دیوالیہ ہوگئیں توامریکی حکومت نے انوکھا کام کیا۔اس معاشی نظام کو بچانے کیلئے عوام کے خون پسینے سے دیا گیا ٹیکس اور قرضوں پر حاصل کی گئی خطیر رقوم ان ہی اداروں کے حوالے کیں جو معاشی بحران کے ذمہ دار تھے۔سودی قرضوں کے دو بڑے ادارے فریڈی میک اورفینی مائی،بڑے بینک ،امریکی گاڑیوں کی کمپنیاں وغیرہ ان چند اداروں میں شامل تھے جن کو یہ بھاری امدادیں فراہم کی گئیں۔اکانومی کیا سنبھلتی، ان اداروں کے عہدیداروں نے سب سے پہلے اس امداد میں سے دسیوں لاکھ ڈالروں کے حساب سے یہ امدادی رقوم بونس کے نام پہ بانٹے۔عوام کاخون چوس کر اپنے بینک اکاونٹ بھرنا ویسے بھی ان کمپنیوں کا شیوہ رہا ہے چناچہ اس ٹوٹتے نظام کی ٹھونک مرمت ہی بذات خود مسئلہ بن گئی۔؟
سود کی شرح میں اضافہ صارفین کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہوتا گیا جس کی وجہ سے لوگ مزید ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے اور بھی دیوالیہ ہوجاتے۔سودی قرض خواہوں کا پیسہ نکلوانے کیلئے بھی ’کولیکٹر ایجنسیز‘نام کی کمپنیاں وجود میں آئیں جن کا غنڈہ گردی پر مبنی رویہ سب کو معلوم ہے۔دولت مند سرمایہ کار اس نظام کی بدولت امیر سے امیرتر ہوتے گئے اور غریب غربت میں بڑھتے گئے۔ عوام کے دن کا چین اور رات کی نیندیں حرام ہوگئیں۔چنانچہ ایسا وقت آنے لگا جب لوگ اپنے کریڈٹ کارڈوں کو قینچی سے کاٹنے لگے۔سودی قرضوں سے چلنے والی ہاوسنگ مارکیٹ منہ کے بل زمین پہ جا گری۔لوگ سڑکوں پہ بے گھر ہو کر آنے لگے۔جب سر پہ چھت پاؤں تلے زمین نہ ہوتو قوت خرید کا تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا، تو مارکیٹ کیسے چلے۔۔۔؟ لیکن اس سرمایہ داری کا جادو کچھ ایسا تھا کہ پچھلے دو تین سالوں میں ملٹی ملنیرز کی تعداد گھٹنے کے بجائے بڑھی ہے جبکہ پورا معاشی نظام اس بحران سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ ہے نا عجیب بات؟
عوام کی آواز کیا کہتی ہے؟
پچھلے سالوں میں آئے دن یہ لوگ ’حالات کے سنبھل جانے‘کے اعلانات کرتے رہتے تھے۔ مگر اب ہر کوئی کھلے عام منفی رائے کا اظہار کررہا ہے۔آج لوگ معاشی بحران کی نہیں بلکہ نظام ہی کو بدل دینے کی بات کرنے لگے ہیں’’۔اوکوپائے وال سٹریٹ‘‘یعنی وال سٹریٹ جو کہ فری مارکیٹ سسٹم کا علمبردارکاروباری علاقہ ہے،اس پر قبضہ اور تبدیلی لانے کی عوامی تحریک چل نکلی ہے۔دوسرے ممالک پر جمہوریت اور آزادی لانے کے نام پر حملہ کرنے والا امریکہ اپنی پولیس کے ذریعے ان پرامن مظاہرین پر جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے وہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔اہم قصہ یہ ہے کہ اس حیران کن تباہی میں امریکہ تنہا نہیں ہے۔مغرب کے دوسرے ممالک کا معاشی نقشہ بھی ایساہی بدحال ہے۔مصر کی کامیاب عوامی تحریک سے متاثر ’’اوکوپائے وال سٹریٹ‘‘ تحریک اب امریکہ یورپ اور دنیا کے باقی ممالک کے گیارہ سو سے زیادہ شہروں میں پھیل گئی ہے۔
معاشی ماہرین اور حکومتیں اس بحران کو ایک متعدی مرض کی طرح سے دیکھ رہی ہیں کہ اگر ایک ملک کو اس بحران سے نہ نکالا گیا تو ایک ایک کرکے تمام ممالک اس کے شکار ہوتے چلے جائیں گے۔ اس لئے پوار یوروپین یونین، یونان اور اٹلی کو بچانے کے لئے تگ و دو کررہا ہے۔ اس کوشش میں چین کے آگے کشکول بھی پھیلایا جاچکا ہے۔یورپ جو آج تک ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرنے سے انکاری رہا ہے، آج انہی کی کرنسی یورو زوال کا شکار ہورہی ہے۔اب ترکی آگے بڑھ کر کہہ رہا ہے کہ ہمیں یونین میں شامل کرلو ہم یوروپ کو معاشی بحران سے بچائیں گے۔
مصر کے عوام کی ثابت قدمی سے متاثرمغربی مظاہرین اب مسلسل سڑکوں پر خیمہ زن ہیں۔گویا آج مغربی عوام مصر اور تیونس سے احتجاج کرنے کا سلیقہ سیکھ رہے ہیں۔وہی مصر اور تیونس جن کے حکمران ہر چیز مغرب سے لے رہے تھی اور اسی پر اصرار کرتے تھے۔
مغرب کا معاشی بحران کا شکار ہونا اور اس حد تک شکار ہو نا کہ عوام و خواص اس نظام پر ہی سوال اُٹھانے لگیں اور اسی دور میں مسلم ممالک میں عوام کش اور اسلام مخالف ڈکٹیٹروں کا ایک ایک کر کے رخصت ہونا ہمارے لئے بہت کچھ پیغام دے رہا ہے۔ مسلم ممالک پر مغرب کاکنٹرول کمزور ہو رہا ہے ۔ دو طویل اور بے نتیجہ جنگوں اور معاشی بحران کی وجہ سے مغرب مسلم ممالک پر اپنی پکڑ مضبوط کرنے کے لئے کچھ زیادہ نہیں کر پارہا ہے۔ مغرب کا دائمی لاڈلا اسرائیل اپنے وجود کے بارے میں ہی پریشان ہے اور اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے اپنی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے۔دوام کسی کو نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی بھی بڑی قومیں گذری سب پر زوال آیا۔ جس نظام کے بل بوتے پر انہوں نے اختتام تاریخ کا خواب دیکھا تھا آج وہ دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح افغان شہداء کے لہو سے سوویت یونین کی سرخی پھیکی پڑ گئی تھی آج پھر افغان اور عرب شہیدوں کا خون رنگ لا رہا ہے
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
قارئین کرام، یہ تحریکیں کیا رنگ لاتی ہیں۔ لا پاتی بھی ہیں یا نہیں، کہ یہ عوامی احتجاج فی الحال ایک یکسو لائحہ عمل سے محروم ہے اورعوامی مظاہرے بہت منتشر ہیں۔لیکن یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ اسلامی نظام کی پیش رفت ایک نئے دور میں داخل ہورہی ہے۔
واللہ المستعان
* اصل دعوی مغرب کی سیکولر ڈیموکریسی کے بارے میں تھا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اس مغربی سیکولر ڈیموکریسی کا لازمی حصہ ہے۔ بلکہ اس معاشی نظام کو ہی بنیاد بنا کر مغرب میں ٹکنالوجی کو اتنا فروغ حاصل ہوا۔ اس لئے مذکورہ کتاب میں کئے گئے دعوی کو معاشی نظام سے الگ رکھ کر نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment